پاکستان کے غداروں کی مختصر تاریخ
پیر , 29 جون , 2015
23 7 4 5
اسلام آباد: 1947سے اب تک پاکستان کو جس میدان میں سبقت رہی ہے وہ غداروں کی پیداوار ہے۔ سیاستدانوں ، دانشوروں اور فعالیت پسندوں کو زیر کرنے کیلئے انہیں غدار قرار دینا محبوب قومی مشغلہ ہے۔ ”سکرول ڈاٹ ان “ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے پہلے غدار حسین شہید سہروردی تھے، متحدہ ہندوستان میں بنگال کے وزیراعظم تھے اور مشرقی بنگال کو پاکستان کا حصہ بننے میں ان کا اہم کردار تھا، تقسیم کے بعد وہ تین ماہ تک کلکتہ میں موہن داس کرم چند گاندھی کے ساتھ رہے اور متحدہ بنگال کے سابق دارالحکومت میں مسلمانوں کیخلاف شورشوں کو ختم کرنے کیلئے کوشاں رہے، پاکستان واپسی کے بعد انہیں قومی اسمبلی کی نشست سے محروم کرتے ہوئے غدار قرار دے دیا گیا۔ اگلے غدار کا نام خان عبدالغفار خان ہے جنہیں عام طور پر سرحدی گاندھی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کی خطا یہ ہے کہ وہ تقسیم سے قبل انڈین نیشنل کانگریس سے وابستہ تھے، فروری 1948میں انہوں نے پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھایا مگر انہیں غدار سے کم درجہ کبھی نہیں دیا گیا، 1948سے 1963کے دوران انہوں نے زیادہ عرصہ جیل میں گزارا اور 1988میں ایک غدار کے طور پر ہی ان کی موت ہو گئی۔ غلام مرتضیٰ شاہ سید 1943میں مسلم لیگ سندھ چیپٹر کے صدر تھے اور اسی حیثیت میں انہوں نے صوبے کو مجوزہ پاکستان کو حصہ بنانے کیلئے سندھ اسمبلی سے ایک قرارداد منظور کروائی۔ سندھ کو پاکستان کا حصہ بنانے کی تمام تر ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے اور بدقسمتی سے انہیں 1946میں آل انڈیا مسلم لیگ سے نکال دیا گیا۔ انہیں غدار قرار دے دیا گیا جس کے بعد پاکستان میں ان کی زندگی صعوبتوں کا شکار رہی۔ ان کی زندگی کے 30برس پاکستانی جیلوں میں گزرے اور 1995میں جب ان کا جناح ہسپتال میں انتقال ہوا تب بھی وہ پولیس کی نگرانی میں تھے۔صرف انفرادی طور پر نہیں بلکہ اجتماعی طور پر سیاسی جماعتوں کو غدار قرار دیا جاتا رہا۔ 1970کے انتخابات میں نیشنل عوامی پارٹی نے شمال مغربی سرحدی صوبے اور بلوچستان میں اکثریت حاصل کی، اس نے دونوں صوبوں میں حکومت بنائی اور پھر سویلین آمر ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں نیپ کی حکومت ختم کر دی، انہوں نے نیپ کے رہنماﺅں نواب خیر بخش مری، عبدالولی خان، سردار عطااللہ مینگل اور غوث بخش بزنجو پر پاکستان کیخلاف سازش کا الزام لگایا، نیپ پر پابندی عائد کر دی گئی اور رہنماﺅں پر غداری کے مقدمات چلنے لگے۔ نواب اکبر بگتی 1947میں اپنے قبیلے کے سربراہ تھے جب انہوں نے برٹش بلوچستان کے پاکستان سے الحاق کے حق میں ووٹ دیا، وہ دفاع کے وزیر مملکت رہے، بلوچستان کے گورنر اور وزیراعلیٰ رہے اور قومی اسمبلی کے ممبر رہے تاہم 2003میں وہ آمر پرویز مشرف کے سامنے بلوچستان کے حقوق کیلئے کھڑے ہو گئے ، ایک بزرگ شخص کی بات سننے کی بجائے محب وطن جرنیل نے انہیں غدار قرار دے کر 2006میں مار دیا۔ غداروں اور غداریوں کا یہ سلسلہ بہت طویل ہے تاہم تازہ ترین غدار عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی ہیںاور دیگر ایسے لوگ ہیں جو چین پاکستان اقتصادی راہدری کے روٹ پر احتجاج کر رہے ہیں۔ پاکستان کی وفاقی حکومت کی طرف سے روٹ پر احتجاج کرنے والوں کی رائے کو اقصادی راہدری کی مخالفت سمجھتے ہوئے ایسا کرنے والوں کو
اسلام آباد: 1947سے اب تک پاکستان کو جس میدان میں سبقت رہی ہے وہ غداروں کی پیداوار ہے۔ سیاستدانوں ، دانشوروں اور فعالیت پسندوں کو زیر کرنے کیلئے انہیں غدار قرار دینا محبوب قومی مشغلہ ہے۔ ”سکرول ڈاٹ ان “ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے پہلے غدار حسین شہید سہروردی تھے، متحدہ ہندوستان میں بنگال کے وزیراعظم تھے اور مشرقی بنگال کو پاکستان کا حصہ بننے میں ان کا اہم کردار تھا، تقسیم کے بعد وہ تین ماہ تک کلکتہ میں موہن داس کرم چند گاندھی کے ساتھ رہے اور متحدہ بنگال کے سابق دارالحکومت میں مسلمانوں کیخلاف شورشوں کو ختم کرنے کیلئے کوشاں رہے، پاکستان واپسی کے بعد انہیں قومی اسمبلی کی نشست سے محروم کرتے ہوئے غدار قرار دے دیا گیا۔ اگلے غدار کا نام خان عبدالغفار خان ہے جنہیں عام طور پر سرحدی گاندھی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان کی خطا یہ ہے کہ وہ تقسیم سے قبل انڈین نیشنل کانگریس سے وابستہ تھے، فروری 1948میں انہوں نے پاکستان سے وفاداری کا حلف اٹھایا مگر انہیں غدار سے کم درجہ کبھی نہیں دیا گیا، 1948سے 1963کے دوران انہوں نے زیادہ عرصہ جیل میں گزارا اور 1988میں ایک غدار کے طور پر ہی ان کی موت ہو گئی۔ غلام مرتضیٰ شاہ سید 1943میں مسلم لیگ سندھ چیپٹر کے صدر تھے اور اسی حیثیت میں انہوں نے صوبے کو مجوزہ پاکستان کو حصہ بنانے کیلئے سندھ اسمبلی سے ایک قرارداد منظور کروائی۔ سندھ کو پاکستان کا حصہ بنانے کی تمام تر ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے اور بدقسمتی سے انہیں 1946میں آل انڈیا مسلم لیگ سے نکال دیا گیا۔ انہیں غدار قرار دے دیا گیا جس کے بعد پاکستان میں ان کی زندگی صعوبتوں کا شکار رہی۔ ان کی زندگی کے 30برس پاکستانی جیلوں میں گزرے اور 1995میں جب ان کا جناح ہسپتال میں انتقال ہوا تب بھی وہ پولیس کی نگرانی میں تھے۔صرف انفرادی طور پر نہیں بلکہ اجتماعی طور پر سیاسی جماعتوں کو غدار قرار دیا جاتا رہا۔ 1970کے انتخابات میں نیشنل عوامی پارٹی نے شمال مغربی سرحدی صوبے اور بلوچستان میں اکثریت حاصل کی، اس نے دونوں صوبوں میں حکومت بنائی اور پھر سویلین آمر ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں نیپ کی حکومت ختم کر دی، انہوں نے نیپ کے رہنماﺅں نواب خیر بخش مری، عبدالولی خان، سردار عطااللہ مینگل اور غوث بخش بزنجو پر پاکستان کیخلاف سازش کا الزام لگایا، نیپ پر پابندی عائد کر دی گئی اور رہنماﺅں پر غداری کے مقدمات چلنے لگے۔ نواب اکبر بگتی 1947میں اپنے قبیلے کے سربراہ تھے جب انہوں نے برٹش بلوچستان کے پاکستان سے الحاق کے حق میں ووٹ دیا، وہ دفاع کے وزیر مملکت رہے، بلوچستان کے گورنر اور وزیراعلیٰ رہے اور قومی اسمبلی کے ممبر رہے تاہم 2003میں وہ آمر پرویز مشرف کے سامنے بلوچستان کے حقوق کیلئے کھڑے ہو گئے ، ایک بزرگ شخص کی بات سننے کی بجائے محب وطن جرنیل نے انہیں غدار قرار دے کر 2006میں مار دیا۔ غداروں اور غداریوں کا یہ سلسلہ بہت طویل ہے تاہم تازہ ترین غدار عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی ہیںاور دیگر ایسے لوگ ہیں جو چین پاکستان اقتصادی راہدری کے روٹ پر احتجاج کر رہے ہیں۔ پاکستان کی وفاقی حکومت کی طرف سے روٹ پر احتجاج کرنے والوں کی رائے کو اقصادی راہدری کی مخالفت سمجھتے ہوئے ایسا کرنے والوں کو غدار قرار دیا جا رہا ہے
- See more at: http://www.dannka.com/tazatareen/7621#sthash.OQdDo34X.dpuf