میں پچھلے سال جنوری کے مہینے میں پولینڈ کے شہر کراکوف میں تھا‘ یہ دوسری
جنگ عظیم تک یہودیوں کا شہر کہلاتا تھا‘ شہر میں یہودیوں کے سیناگوگ بھی
تھے‘ سکول بھی‘ قبرستان بھی اور بازار بھی۔پولینڈ 17ستمبر1939ء کو سوویت
یونین کے قبضے میں چلا گیا‘ ہٹلر نے 1941ء میں پولینڈ فتح کیا تو وارسا کے
ساتھ ساتھ کراکوف کے یہودیوں پر بھی برا وقت آگیا‘ یہ لوگ گیس چیمبر میں
ڈال کر مار دیئے گئے یا پھر برقی بھٹیوں میں زندہ جلا دیئے گئے اور جو بچ
گئے وہ نظر بندی کیمپوں کی نظر ہو گئے‘ کراکوف شہر کا یہودی علاقہ ان مظالم
کی ایک ضخیم کتاب ہے‘ وارسااور کراکوف آہنی پردے کے پیچھے چھپ گئے‘ 1991ء
میں جب سوویت یونین ٹوٹا تو پولینڈ آزاد ہو گیا‘ پولینڈ نے 1994ء میں اپنا
ملک سیاحوں کیلئے کھول دیا‘ یہ اعلان دنیا بھر کے ان یہودیوں کیلئے خوش
خبری ثابت ہوا جن کے والدین دوسری جنگ عظیم کے دوران پولینڈ سے فرار ہو گئے
تھے‘ یہ لوگ دھڑا دھڑ وارسا اور کراکوف آنے لگے‘ آج اسرائیل‘ امریکا‘
ماسکو اور یورپ سے روزانہ درجنوں فلائیٹس اس شہر میں آتی ہیں اور کراکوف سے
بچھڑے یہودی شہر کی گلیوں میں دیوانہ وار پھرتے ہیں‘ کراکوف شہر کا ایک
حصہ ’’جیوش کوارٹرز‘‘ کہلاتا ہے‘ اس حصے میں یہودیوں کے ریستوران‘ بارز اور
کلب ہیں‘ یہاں چوبیس گھنٹے پولیس اور فوج کا پہرہ رہتا ہے‘ میں روزانہ
حلال گوشت کی تلاش میں اس علاقے میں چلا جاتا تھا‘ یہودی اسلامی طریقے سے
ذبح کرتے ہیں‘ یہ گوشت ’’کوشر‘‘ کہلاتا ہے اور یہ مسلمانوں کیلئے حلال ہوتا
ہے‘ کراکوف کے جیوش کوارٹرز کے زیادہ تر ریستورانوں میں ’’کوشر‘‘ ملتا ہے
چنانچہ مسلمان اس علاقے کا رخ کرتے ہیں۔
میں ایک دن اس علاقے کے ایک ریستوران میں کھانا کھا رہا تھا‘ اچانک میرے کانوں سے ایک مانوس سی آواز ٹکرائی اور میں چونک کر دائیں بائیں دیکھنے لگا‘ مجھ سے چند میز چھوڑ کر کھانے کی ایک ٹیبل پر درمیانی عمر کے چارگورے بیٹھے تھے‘ ان کے سامنے موبائل فون پڑا تھا اور فون پر حبیب ولی محمد کی غزل چل رہی تھی‘ وہ چاروں غزل سن رہے تھے اور سردھن رہے تھے‘ میں یہ منظر دیکھ کر اپنی جگہ سے اٹھا‘ ان کی میز پر گیا‘ ان سے معذرت کی‘ اپنا تعارف کرایا اور ان سے پوچھا ’’کیا آپ کو یہ الفاظ سمجھ آ رہے ہیں‘‘ ان چاروں نے ہاں میں سر ہلاکر اردو میں جواب دیا ’’بالکل‘ پوری طرح‘‘ میری حیرت میں اضافہ ہو گیا‘ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ لوگ کس ملک سے تعلق رکھتے ہیں‘‘ ان میں نسبتاً بزرگ نے ویٹر سے پانچویں کرسی منگوائی‘ مجھے ساتھ بٹھایا اور اس کے بعد بولا ’’ہم چاروں بھائی ہیں اور تل ابیب میں رہتے ہیں‘‘ میرا اگلا سوال تھا ’’آپ نے اردو کہاں سے سیکھی‘‘ بزرگ کے جواب نے میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکال دی‘ اس نے بتایا ’’ہم نے اردو کراچی میں سیکھی تھی‘‘ میں نے پوچھا ’’کراچی سے آپ کا کیا تعلق ہے‘‘ اس کا جواب تھا ’’ میں اور میرا چھوٹا بھائی دونوں کراچی میں پیدا ہوئے ہیں اور ہم نے سکول تک تعلیم بھی لیاری میں حاصل کی تھی‘‘ میری حیرت میں اضافہ ہوتا چلا گیا‘ بزرگ کا کہنا تھا ’’ یہودی لوگ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر سے جان بچانے کیلئے دنیا جہاں میں بکھر گئے ‘ ان میں سے 30 ہزار یہودی پولینڈ سے دھکے کھاتے ہوئے کراچی پہنچ گئے‘ ہندوستان میں اس وقت انگریزوں کی حکومت تھی‘ یہ ہٹلر کے مخالف تھے چنانچہ انہیں کراچی میں فوراً پناہ مل گئی‘ ان پناہ گزینوں میں ہمارے دادا‘ دادی اور والد بھی شامل تھے‘ والد کی عمر اس وقت سات سال تھی‘ ہمارے والد کراچی میں جوان ہوئے‘ انہوں نے کراچی کے سیناگوگ میں ایک یہودی پناہ گزین لڑکی سے شادی کی‘ ہم ایک بہن اور دو بھائی پیدا ہوئے‘ میں اور میرے اس بھائی نے کراچی میں پرائمری تعلیم حاصل کی‘‘ وہ رکا اور انگلی سے سامنے بیٹھے شخص کی طرف اشارہ کیا‘ اس شخص نے فوراً احترام سے گردن جھکا لی‘ وہ دوبارہ بولا ’’ہماری والدہ 1975ء میں انتقال کر گئی‘ والد نے دوسری شادی کر لی‘ جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء لگا‘ کراچی کے حالات خراب ہونے لگے‘ یہودی نازی فوج کے ڈسے ہوئے تھے‘ یہ ڈر گئے اور فوراً یورپ اور اسرائیل کی طرف نقل مکانی کرنے لگے‘ ہمارے والد نے بھی ہمیں ساتھ لیا اور ہم تل ابیب چلے گئے‘ تل ابیب میں ہمارے مزید دو بھائی پیدا ہوئے‘ ہم اب اسرائیل میں رہتے ہیں لیکن کراچی ہمارے اندر رہتا ہے‘ ہمارے والد کا 1992ء میں انتقال ہو گیا‘ وہ حبیب ولی محمد کی غزلیں پسند کرتے تھے‘ ہم چاروں بھائیوں کو جب بھی والد یاد آتے ہیں تو ہم ان کی پسند کی غزل ’’کب میرا نشیمن اہل چمن‘‘ سن لیتے ہیں‘‘ وہ بولتے بولتے چپ ہو گیا‘ اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کی چمک تھی‘ میں نے اس سے پوچھا ’’کراچی کے ساتھ کوئی تعلق‘ کوئی رابطہ موجود ہے‘‘ اس نے ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کئے اور بولا ’’ہاں ماں‘ دادا اور دادی کا تعلق ہے‘ یہ تینوں کراچی میں دفن ہیں‘ ہمیں یہ تینوں قبریں روز یاد آتی ہیں‘ آپ اس یاد کو رابطہ سمجھ لیں‘‘ میں نے اس سے پوچھا ’’کیا آپ اس کے بعد کبھی کراچی گئے؟‘‘ اس نے انکار میں سر ہلایا اور جواب دیا ’’اسرائیل اور پاکستان میں سفارتی تعلقات نہیں ہیں‘ ہم کراچی کیسے جا سکتے ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا کراچی میں آج بھی یہودی موجود ہیں‘‘ اس کا جواب تھا ’’نہیں‘ زیادہ تر لوگ یورپ‘ ایران ‘ امریکا‘ اسرائیل اور بھارت شفٹ ہو چکے ہیں‘ جو باقی بچ گئے ہیں‘ وہ اپنی شناخت چھپانے پر مجبور ہیں‘ یہ اب کراچی میں عیسائی یا مسلمان بن کر زندگی گزار رہے ہیں‘ ہمارے سیناگوگ پر قبضہ ہو چکا ہے‘وہاں پلازہ بن چکا ہے‘ گھر بھی لوگوں نے آپس میں بانٹ لئے ہیں لہٰذا کراچی میں اب ہمارے بزرگوں کی قبروں کے سوا کچھ نہیں بچا‘‘۔ میں نے چاروں بھائیوں سے ہاتھ ملایا‘ ان کا شکریہ ادا کیا اور اپنی میز پر آ گیا۔
میں کراکوف سے واپس آ گیا لیکن یہودیوں کی قبریں میرے دماغ میں پھنسی رہیں‘ میں 2015ء میں جب بھی کراچی گیا‘ میں نے یہودیوں کا قبرستان تلاش کیا مگر یہ نہ ملا‘ مجھے پچھلے ہفتے ایک دن کیلئے کراچی جانے کا اتفاق ہوا‘ عرفان جاوید نے کراچی کی تاریخ کے تین ماہرین کا بندوبست کر رکھا تھا‘ ہم نے ان حضرات کی مہربانی سے ہفتے کے دن بالآخر یہودیوں کا قبرستان تلاش کر لیا‘ یہودیوں کی قبریں دو مقامات پر ہیں‘ پہلا مقام لیاری کا میمن کچھی قبرستان ہے‘ اس قبرستان کے اندر ایک یہودی کونہ ہے‘ اس کونے میں یہودیوں کی درجن بھر متروک قبریں ہیں‘ یہ قبریں اپنا وجود کھو چکی ہیں‘ چند ایک قبروں کے نشان اور کتبے باقی ہیں لیکن یہ بھی سال چھ ماہ میں مٹی کا حصہ بن جائیں گے‘ یہودیوں کا اصل اور بڑا قبرستان میوہ شاہ کے قبرستان میں ہے‘ میوہ شاہ کراچی کا سب سے بڑا قبرستان ہے‘ یہ قبرستان لیاری ندی کے دوسرے کنارے پر واقع ہے اور یہ انیسویں صدی میں بنایا گیا‘ میوہ شاہ کے قبرستان کے عین درمیان میں ایک احاطہ ہے‘ احاطے پر سبز رنگ کا گیٹ لگا ہے‘ گیٹ کے ستون پر درمیانے سائز کا ’’سٹار آف ڈیوڈ‘‘ کھدا ہے‘ یہ یہودیوں کی خاص نشانی ہے‘ آپ احاطے میں داخل ہوں تو آپ کو اندر غربت کے مارے چار بوسیدہ گھر ملتے ہیں‘ یہ اس قبرستان کے نگرانوں کے گھر ہیں‘ یہ لیاری کا ایک بلوچ خاندان ہے‘ یہ لوگ تین نسلوں سے اس قبرستان کی دیکھ بھال کر رہے ہیں‘ گھروں سے آگے جھاڑ جھنکار ہے اور اس جھاڑ میں مختلف سائز کی سو سے زائد قبریں ہیں‘ تمام قبروں پر کتبے ہیں‘ کتبوں پر مردوں کا تعارف بھی درج ہے‘ تاریخ پیدائش بھی اور انتقال کی تاریخ بھی۔ قبریں فن تعمیر کا خوبصورت نمونہ ہیں‘ ہر قبر آپ کا راستہ روک کر کھڑی ہو جاتی ہے اور آپ بے اختیار جھک کر اس کا کتبہ پڑھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ زیادہ تر قبروں پر 1850ء سے لے کر 1950ء تک کی تاریخیں درج ہیں‘ یہ ثابت کرتا ہے کراچی میں دوسری جنگ عظیم سے پہلے بھی یہودی موجود تھے اور شاید پولینڈ کے یہودی ان یہودیوں کی وجہ سے کراچی آئے اور یہاں رہائش پذیر ہو گئے‘ ان قبروں میں مختلف شعبوں سے وابستہ یہودی مدفون ہیں‘ ان میں فوجی بھی ہیں‘ بیورو کریٹس بھی‘ تاجر بھی اور استاد بھی‘ قبرستان کے ایک کونے میں ایک چھوٹا سا مقبرہ بھی ہے‘ یہ ایک چکور عمارت ہے‘ دروازہ زمانے کی دست برد کا شکار ہے‘ چھت بلند اور پرشکوہ ہے‘ میں نے بڑی مشکل سے دروازہ کھولا‘ اندر بول و براز کا انبار لگا تھا‘ بدبو کی وجہ سے زیادہ دیر تک کھڑا ہونا مشکل تھا‘ کمرے میں سفید سنگ مر مر کی دو انتہائی خوبصورت قبریں تھیں‘ مرکزی قبر پر 1920ء کا ہندسہ درج تھا‘ مقبرے کی چھت‘ دیواریں‘ کھڑکیاں اور فرش چیخ چیخ کر بتا رہے تھے‘ مقبرے کا مقیم اپنے وقت کا کوئی اہم ترین شخص تھا‘ دوسری قبر اس شخص کی بیگم کی تھی‘ مقبرہ شاندار تھا لیکن اس کے ساتھ سلوک قابل عبرت تھا‘ ایک قبر پر تکیہ بھی رکھا تھا اور وہاں یقیناًکوئی صاحب رات کے وقت آرام کرتے ہوں گے‘ قبرستان کے نگرانوں نے بتایا ’’گورے آج بھی دعا کیلئے قبروں پر آتے ہیں‘‘ نگران نے ایک پرانی قبر کی نشاندہی بھی کی‘ یہ 64 سال کی کسی خاتون کی قبر تھی‘ خاتون 1960ء میں فوت ہوئی‘ کتبہ بچوں نے لگوایا‘ نگران کا کہنا تھا‘ پچھلے سال اسلام آباد سے کوئی خاتون اس قبر پر آئی‘ دعا کی اور ہمیں دس ہزار روپے دے کر کہا‘ مہربانی کر کے قبر کے اوپر سے جھاڑ جھنکار صاف کر دیں‘‘ میں نے پوچھا ’’خاتون پاکستانی تھی‘‘ اس نے بتایا ’’رنگ گورا تھا لیکن اردو بول رہی تھی اور خاصی خوف زدہ تھی‘‘ میں یہ سن کر اداس ہو گیا۔
کراچی کا یہودی قبرستان ایک منفرد جگہ ہے‘ یہ پاکستان میں یہودیوں کی واحد یادگار ہے‘ میری سندھ حکومت اور مذہبی امور کے وفاقی وزیر سے درخواست ہے‘ آپ یہودی قبرستان پر تھوڑی سی توجہ دیں‘ قبریں بحال کریں‘ کتبے صاف کروائیں‘ قبرستان کا تصویری البم شائع کروائیں اور اس قبرستان کو سیاحوں کیلئے کھول دیں‘ آپ اس سلسلے میں یورپی یونین‘ پولینڈ‘ جرمنی اور برطانیہ کے سفارت خانوں کی مدد بھی لے سکتے ہیں‘ آپ قبرستان کی ’’ویب سائیٹ‘‘ بھی لانچ کریں تا کہ وہ یہودی جو سفارتی اور سماجی رکاوٹوں کی وجہ سے اپنے بزرگوں کی قبروں پر نہیں آ سکتے وہ کم از کم انٹرنیٹ کے ذریعے ہی یہ قبریں دیکھ لیں‘ حکومت قبروں کی دیکھ بھال کیلئے پے منٹ کا آن لائین سسٹم بھی بنا دے تا کہ یہ لوگ اپنے بزرگوں کی قبروں پر پھول ڈلوا سکیں‘ ہم تھوڑی سی توجہ سے کراچی کے ان سابق شہریوں کو خوشی دے سکتے ہیں جو 1980 ء کی دہائی میں مسلمانوں کے خوف سے اپنے بزرگوں کی قبریں چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو گئے تھے‘ ہم معمولی سی توجہ سے ان لوگوں کو یہ پیغام دے سکتے ہیں’’ ہم مسلمان صرف زندہ لوگوں سے اختلاف کرتے ہیں‘ قبروں سے نہیں‘‘۔
کیا سندھ کے سائیں سرکار اور اوقاف کے وفاقی وزیر کے پاس اتنی سی توجہ بھی موجود نہیں؟ کیا یہ کراچی کے سابق شہریوں پر اتنی مہربانی بھی نہیں کر سکتے۔
میں ایک دن اس علاقے کے ایک ریستوران میں کھانا کھا رہا تھا‘ اچانک میرے کانوں سے ایک مانوس سی آواز ٹکرائی اور میں چونک کر دائیں بائیں دیکھنے لگا‘ مجھ سے چند میز چھوڑ کر کھانے کی ایک ٹیبل پر درمیانی عمر کے چارگورے بیٹھے تھے‘ ان کے سامنے موبائل فون پڑا تھا اور فون پر حبیب ولی محمد کی غزل چل رہی تھی‘ وہ چاروں غزل سن رہے تھے اور سردھن رہے تھے‘ میں یہ منظر دیکھ کر اپنی جگہ سے اٹھا‘ ان کی میز پر گیا‘ ان سے معذرت کی‘ اپنا تعارف کرایا اور ان سے پوچھا ’’کیا آپ کو یہ الفاظ سمجھ آ رہے ہیں‘‘ ان چاروں نے ہاں میں سر ہلاکر اردو میں جواب دیا ’’بالکل‘ پوری طرح‘‘ میری حیرت میں اضافہ ہو گیا‘ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ لوگ کس ملک سے تعلق رکھتے ہیں‘‘ ان میں نسبتاً بزرگ نے ویٹر سے پانچویں کرسی منگوائی‘ مجھے ساتھ بٹھایا اور اس کے بعد بولا ’’ہم چاروں بھائی ہیں اور تل ابیب میں رہتے ہیں‘‘ میرا اگلا سوال تھا ’’آپ نے اردو کہاں سے سیکھی‘‘ بزرگ کے جواب نے میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکال دی‘ اس نے بتایا ’’ہم نے اردو کراچی میں سیکھی تھی‘‘ میں نے پوچھا ’’کراچی سے آپ کا کیا تعلق ہے‘‘ اس کا جواب تھا ’’ میں اور میرا چھوٹا بھائی دونوں کراچی میں پیدا ہوئے ہیں اور ہم نے سکول تک تعلیم بھی لیاری میں حاصل کی تھی‘‘ میری حیرت میں اضافہ ہوتا چلا گیا‘ بزرگ کا کہنا تھا ’’ یہودی لوگ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر سے جان بچانے کیلئے دنیا جہاں میں بکھر گئے ‘ ان میں سے 30 ہزار یہودی پولینڈ سے دھکے کھاتے ہوئے کراچی پہنچ گئے‘ ہندوستان میں اس وقت انگریزوں کی حکومت تھی‘ یہ ہٹلر کے مخالف تھے چنانچہ انہیں کراچی میں فوراً پناہ مل گئی‘ ان پناہ گزینوں میں ہمارے دادا‘ دادی اور والد بھی شامل تھے‘ والد کی عمر اس وقت سات سال تھی‘ ہمارے والد کراچی میں جوان ہوئے‘ انہوں نے کراچی کے سیناگوگ میں ایک یہودی پناہ گزین لڑکی سے شادی کی‘ ہم ایک بہن اور دو بھائی پیدا ہوئے‘ میں اور میرے اس بھائی نے کراچی میں پرائمری تعلیم حاصل کی‘‘ وہ رکا اور انگلی سے سامنے بیٹھے شخص کی طرف اشارہ کیا‘ اس شخص نے فوراً احترام سے گردن جھکا لی‘ وہ دوبارہ بولا ’’ہماری والدہ 1975ء میں انتقال کر گئی‘ والد نے دوسری شادی کر لی‘ جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء لگا‘ کراچی کے حالات خراب ہونے لگے‘ یہودی نازی فوج کے ڈسے ہوئے تھے‘ یہ ڈر گئے اور فوراً یورپ اور اسرائیل کی طرف نقل مکانی کرنے لگے‘ ہمارے والد نے بھی ہمیں ساتھ لیا اور ہم تل ابیب چلے گئے‘ تل ابیب میں ہمارے مزید دو بھائی پیدا ہوئے‘ ہم اب اسرائیل میں رہتے ہیں لیکن کراچی ہمارے اندر رہتا ہے‘ ہمارے والد کا 1992ء میں انتقال ہو گیا‘ وہ حبیب ولی محمد کی غزلیں پسند کرتے تھے‘ ہم چاروں بھائیوں کو جب بھی والد یاد آتے ہیں تو ہم ان کی پسند کی غزل ’’کب میرا نشیمن اہل چمن‘‘ سن لیتے ہیں‘‘ وہ بولتے بولتے چپ ہو گیا‘ اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کی چمک تھی‘ میں نے اس سے پوچھا ’’کراچی کے ساتھ کوئی تعلق‘ کوئی رابطہ موجود ہے‘‘ اس نے ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کئے اور بولا ’’ہاں ماں‘ دادا اور دادی کا تعلق ہے‘ یہ تینوں کراچی میں دفن ہیں‘ ہمیں یہ تینوں قبریں روز یاد آتی ہیں‘ آپ اس یاد کو رابطہ سمجھ لیں‘‘ میں نے اس سے پوچھا ’’کیا آپ اس کے بعد کبھی کراچی گئے؟‘‘ اس نے انکار میں سر ہلایا اور جواب دیا ’’اسرائیل اور پاکستان میں سفارتی تعلقات نہیں ہیں‘ ہم کراچی کیسے جا سکتے ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا کراچی میں آج بھی یہودی موجود ہیں‘‘ اس کا جواب تھا ’’نہیں‘ زیادہ تر لوگ یورپ‘ ایران ‘ امریکا‘ اسرائیل اور بھارت شفٹ ہو چکے ہیں‘ جو باقی بچ گئے ہیں‘ وہ اپنی شناخت چھپانے پر مجبور ہیں‘ یہ اب کراچی میں عیسائی یا مسلمان بن کر زندگی گزار رہے ہیں‘ ہمارے سیناگوگ پر قبضہ ہو چکا ہے‘وہاں پلازہ بن چکا ہے‘ گھر بھی لوگوں نے آپس میں بانٹ لئے ہیں لہٰذا کراچی میں اب ہمارے بزرگوں کی قبروں کے سوا کچھ نہیں بچا‘‘۔ میں نے چاروں بھائیوں سے ہاتھ ملایا‘ ان کا شکریہ ادا کیا اور اپنی میز پر آ گیا۔
میں کراکوف سے واپس آ گیا لیکن یہودیوں کی قبریں میرے دماغ میں پھنسی رہیں‘ میں 2015ء میں جب بھی کراچی گیا‘ میں نے یہودیوں کا قبرستان تلاش کیا مگر یہ نہ ملا‘ مجھے پچھلے ہفتے ایک دن کیلئے کراچی جانے کا اتفاق ہوا‘ عرفان جاوید نے کراچی کی تاریخ کے تین ماہرین کا بندوبست کر رکھا تھا‘ ہم نے ان حضرات کی مہربانی سے ہفتے کے دن بالآخر یہودیوں کا قبرستان تلاش کر لیا‘ یہودیوں کی قبریں دو مقامات پر ہیں‘ پہلا مقام لیاری کا میمن کچھی قبرستان ہے‘ اس قبرستان کے اندر ایک یہودی کونہ ہے‘ اس کونے میں یہودیوں کی درجن بھر متروک قبریں ہیں‘ یہ قبریں اپنا وجود کھو چکی ہیں‘ چند ایک قبروں کے نشان اور کتبے باقی ہیں لیکن یہ بھی سال چھ ماہ میں مٹی کا حصہ بن جائیں گے‘ یہودیوں کا اصل اور بڑا قبرستان میوہ شاہ کے قبرستان میں ہے‘ میوہ شاہ کراچی کا سب سے بڑا قبرستان ہے‘ یہ قبرستان لیاری ندی کے دوسرے کنارے پر واقع ہے اور یہ انیسویں صدی میں بنایا گیا‘ میوہ شاہ کے قبرستان کے عین درمیان میں ایک احاطہ ہے‘ احاطے پر سبز رنگ کا گیٹ لگا ہے‘ گیٹ کے ستون پر درمیانے سائز کا ’’سٹار آف ڈیوڈ‘‘ کھدا ہے‘ یہ یہودیوں کی خاص نشانی ہے‘ آپ احاطے میں داخل ہوں تو آپ کو اندر غربت کے مارے چار بوسیدہ گھر ملتے ہیں‘ یہ اس قبرستان کے نگرانوں کے گھر ہیں‘ یہ لیاری کا ایک بلوچ خاندان ہے‘ یہ لوگ تین نسلوں سے اس قبرستان کی دیکھ بھال کر رہے ہیں‘ گھروں سے آگے جھاڑ جھنکار ہے اور اس جھاڑ میں مختلف سائز کی سو سے زائد قبریں ہیں‘ تمام قبروں پر کتبے ہیں‘ کتبوں پر مردوں کا تعارف بھی درج ہے‘ تاریخ پیدائش بھی اور انتقال کی تاریخ بھی۔ قبریں فن تعمیر کا خوبصورت نمونہ ہیں‘ ہر قبر آپ کا راستہ روک کر کھڑی ہو جاتی ہے اور آپ بے اختیار جھک کر اس کا کتبہ پڑھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ زیادہ تر قبروں پر 1850ء سے لے کر 1950ء تک کی تاریخیں درج ہیں‘ یہ ثابت کرتا ہے کراچی میں دوسری جنگ عظیم سے پہلے بھی یہودی موجود تھے اور شاید پولینڈ کے یہودی ان یہودیوں کی وجہ سے کراچی آئے اور یہاں رہائش پذیر ہو گئے‘ ان قبروں میں مختلف شعبوں سے وابستہ یہودی مدفون ہیں‘ ان میں فوجی بھی ہیں‘ بیورو کریٹس بھی‘ تاجر بھی اور استاد بھی‘ قبرستان کے ایک کونے میں ایک چھوٹا سا مقبرہ بھی ہے‘ یہ ایک چکور عمارت ہے‘ دروازہ زمانے کی دست برد کا شکار ہے‘ چھت بلند اور پرشکوہ ہے‘ میں نے بڑی مشکل سے دروازہ کھولا‘ اندر بول و براز کا انبار لگا تھا‘ بدبو کی وجہ سے زیادہ دیر تک کھڑا ہونا مشکل تھا‘ کمرے میں سفید سنگ مر مر کی دو انتہائی خوبصورت قبریں تھیں‘ مرکزی قبر پر 1920ء کا ہندسہ درج تھا‘ مقبرے کی چھت‘ دیواریں‘ کھڑکیاں اور فرش چیخ چیخ کر بتا رہے تھے‘ مقبرے کا مقیم اپنے وقت کا کوئی اہم ترین شخص تھا‘ دوسری قبر اس شخص کی بیگم کی تھی‘ مقبرہ شاندار تھا لیکن اس کے ساتھ سلوک قابل عبرت تھا‘ ایک قبر پر تکیہ بھی رکھا تھا اور وہاں یقیناًکوئی صاحب رات کے وقت آرام کرتے ہوں گے‘ قبرستان کے نگرانوں نے بتایا ’’گورے آج بھی دعا کیلئے قبروں پر آتے ہیں‘‘ نگران نے ایک پرانی قبر کی نشاندہی بھی کی‘ یہ 64 سال کی کسی خاتون کی قبر تھی‘ خاتون 1960ء میں فوت ہوئی‘ کتبہ بچوں نے لگوایا‘ نگران کا کہنا تھا‘ پچھلے سال اسلام آباد سے کوئی خاتون اس قبر پر آئی‘ دعا کی اور ہمیں دس ہزار روپے دے کر کہا‘ مہربانی کر کے قبر کے اوپر سے جھاڑ جھنکار صاف کر دیں‘‘ میں نے پوچھا ’’خاتون پاکستانی تھی‘‘ اس نے بتایا ’’رنگ گورا تھا لیکن اردو بول رہی تھی اور خاصی خوف زدہ تھی‘‘ میں یہ سن کر اداس ہو گیا۔
کراچی کا یہودی قبرستان ایک منفرد جگہ ہے‘ یہ پاکستان میں یہودیوں کی واحد یادگار ہے‘ میری سندھ حکومت اور مذہبی امور کے وفاقی وزیر سے درخواست ہے‘ آپ یہودی قبرستان پر تھوڑی سی توجہ دیں‘ قبریں بحال کریں‘ کتبے صاف کروائیں‘ قبرستان کا تصویری البم شائع کروائیں اور اس قبرستان کو سیاحوں کیلئے کھول دیں‘ آپ اس سلسلے میں یورپی یونین‘ پولینڈ‘ جرمنی اور برطانیہ کے سفارت خانوں کی مدد بھی لے سکتے ہیں‘ آپ قبرستان کی ’’ویب سائیٹ‘‘ بھی لانچ کریں تا کہ وہ یہودی جو سفارتی اور سماجی رکاوٹوں کی وجہ سے اپنے بزرگوں کی قبروں پر نہیں آ سکتے وہ کم از کم انٹرنیٹ کے ذریعے ہی یہ قبریں دیکھ لیں‘ حکومت قبروں کی دیکھ بھال کیلئے پے منٹ کا آن لائین سسٹم بھی بنا دے تا کہ یہ لوگ اپنے بزرگوں کی قبروں پر پھول ڈلوا سکیں‘ ہم تھوڑی سی توجہ سے کراچی کے ان سابق شہریوں کو خوشی دے سکتے ہیں جو 1980 ء کی دہائی میں مسلمانوں کے خوف سے اپنے بزرگوں کی قبریں چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہو گئے تھے‘ ہم معمولی سی توجہ سے ان لوگوں کو یہ پیغام دے سکتے ہیں’’ ہم مسلمان صرف زندہ لوگوں سے اختلاف کرتے ہیں‘ قبروں سے نہیں‘‘۔
کیا سندھ کے سائیں سرکار اور اوقاف کے وفاقی وزیر کے پاس اتنی سی توجہ بھی موجود نہیں؟ کیا یہ کراچی کے سابق شہریوں پر اتنی مہربانی بھی نہیں کر سکتے۔