اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) انسانوں کی غلامی اور انہیں قید کرنا زنجیر میں جکڑنے کے بارے میں تو سنا ہی ہو گا لیکن پاکستان میں ایک درخت ایسا بھی ہے جس کو ایک دو ماہ یا سال سے نہیں پورے ایک سو اٹھارہ سال سے برگد کے اس درخت نے کوئی جرم نہ ہو نے کے باوجود سلطنت برطانیہ کے ایک ٹن پولیس افسر کی بربریت کی بھینٹ چڑھا گیاجو اب تک قید ہے اور اس قید سے جھٹکارا نہیں پا سکا،1897 کی ایک تپتی دوپہر کو جیمز سکویڈ نامی پولیس افسر نے نشے کی حالت میں برگد کے اس بوڑھے درخت
کو اپنی جانب آتا محسوس کیا، نشے میں افسر کو گمان گزرا یہ درخت اس پر حملہ آور ہونے والا ہے،’’خطرہ‘‘ محسوس کرتے ہی پولیس افسر نے برگد کے وارنٹ گرفتار ی کردیئے،پھر اسے باقاعدہ’’گرفتار‘‘ کرکے زنجیروں میں جکڑ دیا گیا لیکن ایک سو اٹھارہ سال گزرنے کے باوجود رہائی نصیب نہ ہوسکی۔بوڑھے درخت پر ایک بورڈ آویزاں دیکھا جا سکتا ہے جس پر ’’آئی ایم انڈر اریسٹ‘‘تحریرہے،ساتھ ہی اس افسر کے ظلم کی کہانی بھی درج ہے۔اکثرلوگ اس قیدی درخت کو دیکھنے کے لیے علاقے کا دورہ کرتے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ درخت انگریزوں کے غیر منصفانہ قوانین کی یادگارہے۔اسے سنبھالنے کا مقصد اپنی آنے والی نسلوں اور دنیا کو برطانوی حکمرانوں کے برصغیر کے لوگوں پر کیےظلم کے بارے میں آگاہی دینا ہے۔