Ad

Thursday, March 28, 2019

کیا فائیو جی ٹیکنالوجی صحت کے لیے نقصان دہ ہے؟

نہ صرف جرمنی بلکہ دنیا بھر میں موبائل فون نیٹ ورک کی پانچویں جنریشن (5G) متعارف کروانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ جانیے موبائل فون سے نکلنے والی شعاعوں کے انسانی اور خاص طور پر بچوں کی صحت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

موبائل فون نیٹ ورک کی پانچویں جنریشن یعنی فائیو جی میں ہائی فریکوئنسی اور بینڈ ویتھ استعمال کی جائے گی۔ اس کی وجہ سے صارفین ماضی کے مقابلے میں کئی گنا تیزی سے ڈیٹا ڈاؤن لوڈ اور اپ لوڈ کر سکیں گے۔ اس ٹیکنالوجی سے فی سیکنڈ دس گیگا بائٹ منتقل ہو سکتے ہیں۔

ابھی تک جی نیٹس کے لیے سات سو میگا ہرٹس سے چھ گیگا ہرٹس کی فریکوئنسیاں استعمال کی جا رہی تھیں لیکن اب فائیو جی میں اٹھائیس سے ایک سو گیگاہرٹس کے درمیان فریکوئنسیاں استعمال کی جائیں گئی۔ موازنہ کرنے کی صورت میں اس کا مطلب یہ ہے کہ فور جی انٹرنیٹ تھری جی سے دس گناہ زیادہ تیز تھا لیکن فائیو جی فور جی سے ایک ہزار گنا تیزی سے کام کرے گا۔ سویڈن کی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنی ایریکسن کے اندازوں کے مطابق سن دو ہزار چوبیس میں دنیا کی چالیس فیصد آبادی فائیو جی ٹیکنالوجی استعمال کرے گی۔

کیا ہمیں فکرمند ہونا چاہیے؟
حال ہی میں دنیا بھر سے تقریباﹰ دو سو پچاس سائنسدانوں نے اقوام متحدہ میں ایک پیٹیسشن دائر کی تھی، جس پر عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بھی دستخط کیے تھے۔ اس میں ماہرین نے خبردار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسمارٹ فون یا پھر ریڈیو انٹینا سے نکلنے والی شعاعیں برقی مقناطیسی میدان (ای ایم ایف) پیدا کرتی ہیں، جن سے کینسر کے خطرے میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس میں خبردار کرتے ہوئے کہا گیا ہے، ’’اس کے اثرات میں کینسر کے بڑھتے ہوئے خطرات، سیلولر اسٹریس، خطرناک مالیکیولز کا اخراج، جینیاتی نقصانات، تولیدی نظام کی ساخت اور فعال میں تبدیلیاں، سیکھنے اور یادداشت کے عمل میں کمزروی شامل ہیں۔‘‘ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ موبائل سے نکلنے والی شعاعوں سے انسانی رویے کے ساتھ ساتھ اعصابی نظام بھی متاثر ہوتا ہے۔

ٹو جی، تھری جی اور فور جی سے متعلق ہونے والے متعدد سائنسی مطالعے مزید روشنی ڈالتے ہیں کہ برقی مقناطیسی میدان انسان کی صحت پر کیا اثرات چھوڑتے ہیں؟ ایسے مطالعات میں بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسمارٹ فونز کے سگنلز اسٹریس کے ساتھ ساتھ سپرمز، تولیدی نظام، انسانی دماغ میں برقی تبدیلیوں اور ڈی این اے کے لیے نقصان دے ہیں۔

سائنسدانوں کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس سے صرف انسان ہی متاثر نہیں ہو رہے بلکہ برقی مقناطیسی شعاعیں جانوروں اور پودوں کو بھی متاثر کر رہی ہیں۔ سارا ڈرائسن جرمنی کی مشہور آخن یونیورسٹی میں ’برقی مقناطیست اور ماحولیاتی مطابقت‘ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ان کا ایک امریکی تحقیقق کا حوالہ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ چوہوں کو دو سال کے لیے دن میں تقریبا نو گھنٹے برقی مقناطیسی میدان کے زیر اثر رکھا گیا تھا۔ دو سال میں چوہوں کے اعصابی نظام، دماغ، دل اور تولیدی نظام میں تبدیلیاں پیدا ہو گئیں تھیں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا، ’’اگر لہریں ملی میٹر میں اور زیادہ طاقتور ہوں گی جیسا کہ فائیو جی میں ہو رہا ہے، تو ابھی تک کی نسبت صورتحال مزید سنجیدہ ہو جائے گی۔‘‘ کچھ سائنسدان بچوں کو لاحق خطرات سے خبردار کرتے ہیں۔ بچوں کی کھوپڑی چھوٹی ہونے اور اس کی ہڈیاں کمزور ہونے کہ وجہ سے ان شعاعوں کا ان پر زیادہ اثر ہوتا ہے۔

دریں اثناء جرمنی میں ریڈی ایشن سے تحفظ کے وفاقی دفتر (بی ایف ایس) نے فائیو جی ٹیکنالوجی کے انسانی صحت کے خلاف خطرات جاننے کے لیے بنیادی تحقیق کروانے کا مطالبہ کیا ہے کیوں کہ اس ملک میں بھی جلد ہی یہ ٹیکنالوجی متعارف کروا دی جائے گی۔