Ad

Monday, September 29, 2014

پاکستان کا نوبل انعام یافتہ واحد شخص(ڈاکٹر عبد السلام) "جانگلی" ھی تھا

اپر پنجاب میں ملتان کے مشرقی علااقوں میں رہنے والوں کو جانگلی کہا جاتا ھے جس پنجابی میں معنی سور کے کچھ لوگوں کا خیال اجڈ جاہل کو جانگلی کہتے ہیں لیکن پنجابی کی لغت میں اس کا مطلب "سور"یہ لفظ جانگلی ان تمام سرائیکیوں کو کہتے ہیں جو خانیوال جھنگ سرگودھا خوشاب چنیوٹ تھل ٹوبہ ٹیک سنگھ وھاڑی بہاول نگر پاکپتن اوکاڑہ ساہیوالمیں رہتے ہیں
آج " جانگلی" نامی گالی انگریز کے مراعات یافتہ لوگ ھمیں دیتے
اگر ھم اتنے ھی جاہل ،اجڈ ان پڑھ گنوار تھے
اس وقت کے پورے پنجاب میں ان لوگوں نے ھی کیوں جنگ آزادی میں حصہ لیا ؟؟؟
ھما را قصور صرف یہ ھے جب لاھور میں انگریزوں کو خوش آمدید کہا جا رھا تھا اس وقت ھم انگریز کے خلاف متحد ھو کر جنگ کر رھے تھے انگریز نے ھم سے اپنا بدلہ اس طرح لیا اپنے تمام حامیوں کو یہاں لا کر آباد کر دیا

ھم اس لعنتی نام "جانگلی" سے جان چھڑانا چاھتے ھیں جو سکھوں انگریزوں اور ان حواریوں نے جنگ آزادی کے بدلے ھمیں دیا ھے
یہی وہ جانگلی (سرائیکی)زبان(سوروں اجڈ جاہلوں کی زبان ) تھی
جس زبان میں شاہ عبد الطیف سچل سرمست بابا فرید گنج شکر بابا گرو نانک(جسے بعدمیں دوآبی میں تبدیل کیا گیا) بابابلھے شاہ شاہ حسین لہوری میاں محمد بخش نے تبلیغ کا ذریعہ بنایا انہی کی شاعری کو سندھ اور مغربی پنجاب (سرائیکی علاقہ )میں سرائیکی اور پنجابی اس کو زبردستی جانگلی کہتے ہیں کی یاد رکھنا صوبہ ملتان کا ایک مرکز دیپالپور تھا اور دوسرا بھکر اور تیسرا ٹھٹہ تھا سندھ سے کشمیر تک اس زبان کو ملتانی اور اسی کو سرائیکی کہتے ہیں اور ظالموں ان میں جو حریت پسند تھے جن کو غلامی قبول نہیں تھی ان کو تم جانگلی(پنجابی کی غلیظ گالی)بنا دیا
آئیے تاریخ کے حوالے سے دیکھتے ہیں آپ نے ہمیں ھی جانگلی کیوں بنا دیا

"حویلی کو رنگا کی لڑائی کے نتیجے میں جگہ جگہ بغاوت پھوٹ پڑی اور حویلی کو رنگا، قتال پور(موجودہ خانیوال سابقہ ملتان) سے لیکر ساہیوال بلکہ اوکاڑہ تک کا علاقہ خصوصا دریائے راوی کے کنارے بسنے والے مقامی سرائیکیوں(جنکو تم جانگلی کہتے ہو) کی ایک بڑی تعداد اس تحریک آزادی میں شامل ہو گئی ۔ اس علاقے میں اس بغاوت کا سرخیل رائے احمد خان کھرل تھا جو گو گیرہ ((موجودہ ساہیوال) کے نواحی قصبہ جھامرہ کا بڑا زمیندار اور کھرل قبیلے کا سردار تھا احمد خان کھرل کے ہمراہ مراد فتیانہ سیال ،احمدسیال ، شجاع بھدرو، موکھا وہنی وال اور سارنگ داد فتیانہ سیال جیسے مقامی سردار اور زمیندار تھے ۔
مورخہ 16ستمبر 1857 کو رات گیارہ بجے انگریز سرکار کے ڈپٹی کمشنر ساہیوال بمقام گوگیرہ کو احمد خان کھرل کی مخبری کی مورخہ اکیس ستمبر 1857کو راوی کے کنارے ”دلے دی ڈل میں اسی سال احمد خان کھرل پر جب حملہ ہوا تو وہ عصر کی نماز پڑھ رہا تھا۔ ۔ احمد خان کھرل اور سارنگ احمد سیال شہید ہو ئے ۔ انگریز احمد خان کھرل کا سر کاٹ کر اپنے ہمراہ لے گئے ۔ احمد خان کھرل کے قصبہ جھامرہ کو پیوند خاک کرنے کے بعد آگ لگا دی گئی ۔ فصلیں جلا کر راکھ کر دی گئیں۔ تمام مال مویشی ضبط کر لیے گئے داد فتیانہ اور مراد فتیانہ سمیت دیگر سرداروں کو سزا کے طور پر بعبور دریائے شور یعنی کالا پانی بھجوادیا گیا۔ ۔جہاں سے داد فیتانہ بھاگ گیا اس مرد مجاہد کو زمین کھا گئی یا آسمان پھر ان کوئی پتہ نہ لگا اس کے بعد دریائے راوی چناب کے کنارے اس علاقے کے بارے میں راوی چین لکھتا ہے لیکن اس شمع آزادی نے کافی عرصہ انگریز سر کار کو بے چین رکھا
پاکستان کا نوبل انعام یافتہ واحد شخص(ڈاکٹر عبد السلام) "جانگلی" ھی تھا