ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کا گرہن اس وقت وقوع پذیر ہوتا ہے جب زمیں، سورج اور مریخ ایک ہی قطار میں آ جاتے ہیں۔ اس ترتیب کے نتیجے میں چاند کا رنگ خون کی طرح سرخ ہو جاتا ہے۔ بعض لوگ اس طرح کی خونی رنگت والے چاند کے نظارے کو دنیا کے خاتمے اور حضرت عیسیٰ ؑ کے ظہور کی نشانی قرار دیتے ہیں لیکن ایسے گرہن کے بعد جب چاند سرخ ہو جاتا ہے تو اہل یہود اس کو دنیا کی بادشاہت حاصل ہونے کی سنہری نوید قرار دیتے ہیں۔ خونی چاند گرہن مکمل چاند گرہن کو کہا جاتا ہے۔
امریکی خلائی ادارے ناسا نے بھی سال 2014 اور 2015 میں ’’بلڈ مون‘‘ کے بارے میں تصدیق کی ہے کہ یہ چاند وقفے وقفے سے چار مرتبہ نمودار ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی دنیا بھر میںیہودی بادشاہت کی بحث کو بہت ہی غیر محسوس طریقے سے چھیڑ دیا گیا، جس میں اب بہ تدریج گرمی لائی جا رہی ہے۔ رواں سال 15 اپریل کو پہلی بار اور اب 8 اکتوبر کو دوسری بار خونی چاند کا یہ نظارہ آسمان پر دیکھا جا سکے گا۔ اپریل میں یہ منفرد نظارہ ایک ہفتہ تک دیکھا گیا۔ یہ مننظر اُس وقت تک قائم رہا جب تک مریخ اور زمین کے درمیان فاصلہ نو کروڑ 20 لاکھ میل نہ ہو گیا۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ صدیوں کے دوران ایسے خونی چاند گرہن تین بار وقوع پذیر ہو چکے ہیں۔
یہودیوں کی مقدس کتاب تالمود میں لکھا ہے کہ جب ایسا چاند گرہن لگتا ہے تو وہ بنی اسرائیل کے لئے بُرا شگون ہوتا ہے، دنیا پر تلوار کا سایہ پڑ جاتا ہے مگر ’’یہ ہماری فتح کی نشانی بھی ہے‘‘۔ یہودی بہ ظاہرعلم نجوم پر یقین نہیں رکھتے لیکن دو ہزار سال سے وہ سرخ چاند گرہن کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ وہ سورج اور چاند گرہنوں کے دوران کرۂ ارض کی تبدیلیوں کا مشاہدہ و مطالعہ اپنی مقدس کتابوں کی روشنی میں ضرور کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے باقاعدہ ایک سیل قائم کیا گیا ہے، جس کے مطابق ماضی میں جب بھی خونی چاند گرہن ایک ترتیب سے ظاہر ہوئے تو بنی اسرائیل پر ہمیشہ آفت آئی مگر ان کے عقیدے کے مطابق اس آفت میں اُن کی یقینی فتح بھی پوشیدہ رہی ہے، تاریخ میں ایسا متعد بار ہوچکا ہے۔
چاند کا یہ خونی نظارہ ہمیشہ سے یہودیوں کے مذہبی تہواروں کے دوران ہی وقوع پذیر ہوتا ہے۔ اس سے قبل یہ چاند گرہن دو یہودی مذہبی تہواروں کے دوران مسلسل رونما ہوئے، 2014 میں دو بار اور 2015 میں بار دگر دو بار ان ہی دنوں میں رونما ہونے والے ہیں۔ گزشتہ پانچ صدیوں میں تین مرتبہ ایسا ہوا کہ جب کسی ایک سال میں دو خونی چاند گرہن لگے تو اس سے اگلے برس بھی دو ایسے ہی خونی چاند چڑھے۔
پہلی مرتبہ 93-1492 میں جب اسپین کو ملکہ ازابیلا اور فرڈیننڈ نے فتح کیا تو یہودیوں اور مسلمانوں پر افتاد پڑی اور انہیں جبراً عیسائی بنایا گیا، جو نہیں ہوئے انہیں بہت بڑے پیمانے پر تہِ تیغ کیا گیا اور غلام بنایا گیا۔ یہودیوں کو خاص طور پر ہفتے کے دن کاروبار کرنے اور سُؤر کھانے پر مجبور کیاگیا۔ دوسری بار چار خونی چاند گرہنوں کی سیریز، 50 -1949 میں شروع ہوئی تو اسرائیل کی ریاست قائم ہوئی اور ڈیوڈ بن گوریاں کی حکومت بنی مگر عرب ممالک نے مل کر اسرائیل پرحملہ کیا۔
تیسری مرتبہ 68 -1967 میں چار سرخ چاند چڑھے تو عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس جنگ میں اسرائیل کی مدد امریکا نے کی اور یوں دو ہزار سال بعد بیت المقدس (یروشلم) پر یہودیوں کا قبضہ ہو گیا۔ گزشتہ کئی سال سے چار خونی چاند کی سیریزکا انتظار والے اب پھر پراُمید ہیں کہ دنیا پر ان کی باد شاہت قائم ہونے والی ہے۔ یوں سرخ چاندوں کے حوالے سے یہودیوں کا عقیدہ خاصا پیچیدہ ہے، ان چاند گرہنوں کے برسوں میں جہاں انہیں المیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہاں وہ اسے اپنے مالی استحکام اور اقتدار کے لیے باعثِ برکت بھی قرار دیتے ہیں۔ یہ ان محاوروں کے عین مصداق ہے جن میں ہر غم کے بعد خوشی کی نوید دی جاتی ہے۔
اکیسویں صدی کا پہلا خونی چاند گرہن اپریل 2014 میں لگ چکا ہے۔ اس دوران اُن کا سات روزہ مشہور تہوار’’ یدش‘‘ جاری تھا۔ اس تہوار پر یہودی اپنی مخصوص روٹی پکاتے ہیں اور اپنے معبد (Cinagog) کے سامنے قربانی بھی دیتے ہیں۔ اب دوسرا خونی چاند 8 اکتوبر 2014 کو چڑھے گا ۔ اس دوران یہودیوں کا مشہور مذہبی دن اسکوٹ آ رہا ہے، جس کے آخر میں یوم کپور آنے والا ہے۔ اس تہوار کو یہودی مصر سے صحرائے سینا میں آمد اور وہاں اپنی چالیس سالہ ’در بہ دری‘ کی یاد کے طور پر مناتے ہیں۔
نئے سال میں تیسرا خونی چاند 4 ۔اپریل 2015 کو طلوع ہو گا اور یہ ’’ یدش‘‘ کے دنوں میں آرہا ہے۔ اس کے بعد چوتھا خونی چاند 28 ستمبر 2015 کو نمودار ہو گا اور یہ اسکوٹ کے دنوں میں آئے گا۔ اس پس منظر میں عالمی منظر نامہ کیا ہو گا ؟ اس پر جہا ں دیگر اقوام سوچ رہی ہیں تو وہیں یہودی بھی یہ تصور کیے بیٹھے ہیں کہ اس دوران اسرائیل کے ساتھ کسی جنگ کا آغاز ہو گا اور اس کے آخر میں فتح اسرائیل کی ہوگی۔ اس وقت جہاں اسرائیل بھر کے معبدوں میں دعاؤں اور دیوار گریہ پر روایتی گریے کا سلسلہ جاری ہے، وہیں دوسری جانب ان کے زیر سایہ کام کرنے والا عالمی میڈیا اس سارے عمل کو Tragedy and then Triumph کے نام سے یاد کر رہا ہے یعنی پہلے اندوہ پھر کام یابی۔
پہلے دبے دبے لفظوں میں جب میڈیا نے اس یہودی فلسفے کے تحت بات شروع کی کہ اب امریکا اس قابل نہیں رہا کہ دنیا میں امن قائم رکھ سکے لہٰذا اسرائیل کو اب خود آگے بڑھ کر دنیا سے دہشت گردی ختم کرنا ہوگی تو اس پر امریکا، اسرائیل سے وقتی طور پر ناراض بھی ہوا تھا مگر اب یہ سمجھنے میں زیادہ دشواری نہیں ہوتی کہ اسرائیل نے اکتوبر 2o14 سے بہت ہی پہلے غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں پر جو وحشیانہ حملے شروع کیے ، وہ کس لیے اور کیوں تھے؟ ۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ کارروائی مسلمانوں کی بچی کھچی حمیت کو آزمانے کا ٹیسٹ کیس تھا۔ اس ٹیسٹ کیس میں اُن کو بہارِ عرب کے منظر نامے سے جو کام یابی ملی تھی، وہ اُسے بھی رواں سال کے پہلے خونی چاند سے تعبیر کر رہے ہیں۔
پاکستان اور چارخونی چاند
آج یہ بات سب جانتے ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد سے اہلِ یہود کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں، اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بہار عرب سے داعش تک کی صورت حال کے بعد اُن کا اصل ہدف پاکستان کے وہ ایٹمی اثاثے ہیں، جن کا ذکر معروف کتاب ’’اوباما وار‘‘ میں ہوچکا ہے کہ کس طرح سال 2014-15 کے دوران پاکستان کو ان ایٹمی اثاثوں سے محروم کرنا ہے۔ اب اسرائیلی اور امریکی میڈیا میں ان آنے والے دنوں کے بارے میں جو عجیب وغریب پیش گوئیاں پیش کی جا رہی ہیں، اُن کے پیچھے کارفرما عوامل کو فوری طور پر سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔
ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے ’’اندوہ کے بعد کامیابی‘‘ کے فلسفے پرگذشتہ چار سال سے کام شروع کر رکھا ہے اوربہار عرب اس کا ایک شاخ سانہ ہے۔ اگر یہ بات سچ ہے تو پھر پاکستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی، سماجی اقتصادی اور عسکری صورت حال کے پس منظر اور پیش منظر کو سامنے رکھ کر بہت کچھ کرنے کی اشد ضرورت ہوگی۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہم اگر سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نئی دہلی کے خاص نمبر ’’اسلام اور مغرب‘‘ مورخہ 16 اپریل 1991 میں مولانا مودودی صاحب کا ایک اہم مضمون بہ عنوان ’’یہودیوں کا چوتھا منصوبہ‘‘ کے چند اقتباس پڑھ لیں، توان خدشات کی تفہیم ممکن ہے، جو اب بھی ذہنوں میں اٹھتے ہیں ۔ وہ لکھتے ہیں ’’اب درحقیقت جس چیز سے دنیائے اسلام کوخطرہ درپیش ہے، وہ یہودیوں کا چوتھا اور آخری منصوبہ ہے، جس کے لیے وہ دو ہزار سال سے بے تاب ہیں اور جس کی خاطر وہ 90 سال سے باقاعدہ ایک اسکیم کے مطابق کام کرتے رہے ہیں۔
اس منصوبے کے اہم ترین اجزا دو ہیں: ایک یہ کہ مسجد اقصیٰ اور قبۂ صخرہ کو گرا کر ہیکلِ سلیمانی پھر سے تعمیر کی جائے کیوں کہ اس کی تعمیر ان دونوں مقاماتِ مقدّسہ کو ڈھائے بعیر ممکن نہیں۔ دوسرا یہ کہ اس پورے علاقہ پر قبضہ کیا جائے، جسے اسرائیل اپنی میراث سمجھتا ہے۔ منصوبے کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ میراث کے تصور کے تحت پورے ملک (فلسطین) پر قبضہ کیا جائے۔ میراث کا ملک کیا ہے؟ اسرائیل کی پارلیمنٹ کے سامنے یہ الفاظ لکھے ہیں ’’اے اسرائیل ! تیری سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں‘‘۔
اس منصوبے کی جو تفصیل صہیونی تحریک کے شائع کردہ نقشے میں دی گئی ہے۔ اس کی رُو سے اسرائیل جن علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ان میں دریائے نیل تک مصر، اردن، شام، لبنان کا سارا علاقہ، عراق کا ایک بڑا حصہ، ترکی کا جنوبی علاقہ اور (جگر تھام کر سُنیے) مدینہ منورہ تک حجاز کا پورا بالائی علاقہ شامل ہے‘‘۔ مولانا مزید لکھتے ہیں ’’مسجد اقصیٰ اس وقت تک محفوظ نہیں ہوسکتی جب تک بیت المقدس یہودیوں کے قبضے میں ہے اور خود بیت المقدس کا علاقہ بھی محفوظ نہیں ہوسکتا جب تک فلسطین پر یہودی قابض ہیں۔ اس لیے اصل مسئلہ فلسطین کو یہودیوں کے غاصبانہ تسلّط سے آزاد کرانے کا ہے۔
ان حقائق کے سامنے آنے کے بعد نہ صرف مسجد اقصیٰ بل کہ مدینہ منورہ کو بھی آنے والے خطرات سے بچانے کی صرف ایک ہی صورت باقی رہ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کی طاقت کو یہودی خطرے کا مقابلہ کرنے اور اسلام کے مقامات کو مستقل طور پر محفوظ کرنے کے لیے مجتمع کیا جائے‘‘۔
مگر مسلم اُمہ کی تازہ ترین صورت حال کی ایک جھلک یہ ہے۔ حال ہی میں امریکا اور مغرب کے میڈیا میں مسڑ ڈیوڈ ڈی کریک پیٹرک کا ایک تجزیاتی مقالہ شائع ہوا ہے، جس کے مطابق ’’حَمّاس اسرائیل سے زیادہ خطرناک اور بدتر تنظیم ہے۔ مصر، متحدہ عرب امارات ، اردن ، کویت وغیرہ سب حماس کو کچلنے کے مشن میں اسرائیل کے حامی ہو چکے ہیں‘‘۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غزہ کے حالیہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے سعودی عرب کی حمایت سے مصر نے جو تجاویز پیش کی ہیں، وہ فلسطینیوں سے زیادہ اسرائیل اور نیتن یاہو کے مقاصد سے ہم آہنگ ہیں۔ مغرب اور امریکی میڈیا میں سعودی عرب کو ایک عرب ملک تو لکھا جارہا ہے لیکن اس کی تکرار اتنی زیادہ ہے کہ اب بچے بچے کی سمجھ میں آرہا ہے کہ یہ کون ملک ہے۔
مغربی میڈیا یہ بھی لکھتا ہے کہ ایک مشکل یہ بھی ہے کہ ایک عرب ملک شام میں جن جہادی تنظیموں کو حربی اور مالی امداد دینے کے بعد امریکا سے مطالبہ کررہا تھا کہ فضائی حملے سے شام کے حکم رانوںکو پاش پاش کردیاجائے تاکہ جہادی تنظیموں کو غلبہ حاصل ہو، اب محسوس ہوتا ہے کہ امریکا نے اس ملک کو اس امر کی یقین دہانی کرادی تھی، جس کے عوض اس عرب ملک نے مصر میں الاخوان المسلمون کی منتخب حکومت کو فوج کے ذریعے معزول کرایا اورجنرل السیسی کی مالی اور سیاسی حمایت بھی کی۔ گو کہ یہ امریکا کا ایجنڈا تھا اور اسی کے نتیجے میں بہار عرب، خزاںمیں بدلی تھی‘‘۔
اب صورت حال یہ بھی ہے کہ ایک طرف امریکا اور اسرائیل عربوں کو استعمال کرتے ہیں تو دوسری جانب یہودی اپنے کارپوریٹ میڈیا سے ان کے لیے استعمال ہونے والوں کوسامنے لاکر انہیں ذلیل بھی کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مسلم حکم رانوں کی مسلم اْمّہ کے مسائل سے بے حمیّتی، بے حسّی اور لاتعلقی کو غیر محسوس طریقے سے دنیا کے سامنے لاتے ہیں۔ مثلاً ’’ یہ حکم ران اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے اُسی کفر کی قوتوں کے درپردہ حامی ہیں، جن کو یہ بہ ظاہر بُرا بھلا کہتے ہیں‘‘۔
اگست 2014 کے وسط میں سعودی عرب کے مفتیٔ اعظم شیخ عبدالعزیز آلِ شیخ نے ایک فتویٰ دیا، جو میڈیا میں بھی رپورٹ ہوا ۔ اس کی رو سے مفتیٔ اعظم نے جن تین تنظیموں کو دہشت گرد اور اسلام دشمن قرار دیا، اُن کے نام داعش، القاعدہ اور النصر فرنٹ ہیں۔ داعش مخفَّف ہے ’’دولت اسلامیۂ عراق وشام‘‘ کا۔ عالمی پریس اس کو Islamic State of Iraq and Syria (ISIS) کہتا ہے۔ دراصل یہ خلافتِ اسلامیہ کااعلان ہے۔ اس فتوے کو عالم اسلام میں سراہا گیا لیکن درپردہ ان تنظیموں کی امداد کے عمل پر تشویش بھی ظاہر کی جا رہی ہے۔
اب ان تنظیموں کی اسرائیل سمیت بہت سے دیگر مسلم ممالک کی درپردہ حمایت نے عام مسلمانوں کو پریشان کر رکھا ہے۔ یہ پریشانی ایک اشتعال کی صورت میں سامنے آرہی ہے اور انتقام کے جذبات پیدا کر رہی ہے۔ ایسے میں ان مشتعل جذبات کو مزید ابھار کر ان تنظیموں کے منتظمین عوام کو مشتعل کر کے آج بھی اپنی جانب مائل کررہے ہیں۔ ایسے میں اگر اسرائیل چار خونی چاند کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے اپنے کسی خفیہ منصوبے پر عمل درآمد شروع کر دیتا ہے تو اب وہ مسلمان، جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نظر آرہے ہیں، کس طرح ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوں گے؟
خبرِ وحشت اثر کچھ یوں بھی ہے کہ یہودی لابی ایک منظم سازش کے تحت حرمین الشریفین کے گرد 31 اڈے قائم کرچکی ہے۔ دوسری خطرناک سازش یہ ہے کہ انہیں بحیرۂ احمر (Red Sea) پر قبضہ کرنا ہے، اس لیے کہ بحیرۂ احمر کے مشرقی کنارے پر اسلام کے دونوں مراکز مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ واقع ہیں۔ تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ بادشاہ ابرہہ نے بحیرۂ احمر ہی عبور کرکے بیت اللہ کو منہدم کرنے کی ناپاک کوشش کی تھی، جسے ہمیشہ کے لیے ذلت و عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔
حدیث شریف میں ہے کہ قیامت سے پہلے حبشہ سے جو کافر بیت اللہ پر حملہ آور ہوں گے، وہ بھی بحیرۂ احمر سے گزر کر آئیں گے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اسرائیل کی بحریہ کے سربراہ نے کہا ہے کہ ’’ہم ایسے منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں بحیرۂ احمر ہمارے زیرِ نگیں آجائے گا، تب اس کا نام بحرِ یہود یا بحر ِاسرائیل رکھ دیا جائے گا۔‘‘ یہودیوں کے یہ تمام منصوبے اور سازشیں اسی منظم سازش کا حصہ ہیں جو وہ مکہ اور مدینہ کے خلاف کر رہے ہیں۔ وہ قبلۂ اول کے بعد اب قبلۂ آخر کے خلاف خطرناک سازشوں میں مصروف ہیں۔
اس پس منظر میں اگر ہم پاکستان کی موجودہ صورت حال کو سامنے رکھیں تو وہ سیاسی عدم استحکام کے خاتمے اورعسکری مضبوطی کی متقاضی ہے۔ یہ دونوں اہداف اُس وقت تک حاصل کرنا ممکن نہیں جب تک ملک کے سیاسی رہ نما ؤں اور فوج کے درمیان مکمل ہم آہنگی پیدا نہیں ہو جاتی۔ نائین الیون سے لے کر نواز شریف کی تیسری وزارتِ عطمیٰ تک کے عرصے کا اگر غیرجانب دار ی سے تجزیہ کیا جائے تو پاکستان میں سیاسی سطح پر انتشار میں اضافہ قابل تشویش ہے۔
ملک میں معاشی اور سماجی سطح پر ابتری کی داستان اس کے علاوہ ہے۔ غیر جانب دار تجزیہ تو یہ بھی کہتا ہے کہ اس مجموعی صورت حال کی وجوہات میں بیرونی عوامل سے زیادہ ملک کے اندر کرپشن اور میرٹ کی خلاف ورزی سب سے زیادہ اہم ہے ۔ گروہ بندیوں، ذاتی مفاد اور ہر سطح پر لوٹ کھسوٹ نے اس مجموعی صورت حال کو گود لے رکھا ہے اور اس ’’گود بھرائی‘‘ کی رسم کو ہمارے حکم رانوں نے مکمل تحفظ دیا ہوا ہے۔
دیوارِ گریہیہ مقام دنیا کے قدیم شہر یروشلم یا یروشلیم (بیت المقدس) میں واقع یہودیوں کی ایک اہم یادگار ہے، جس کے سامنے رونا گڑگڑانا اہل یہود کا ایک اہم مذہبی فریضہ ہے۔ اُن کے مطابق یہ مقام جو دراصل ایک دیوار ہے، تباہ شدہ ہیکل سلیمانی کا بچ جانے والا حصہ ہے۔ یہ یہودیوں کے لیے انتہائی اہم زیارت ہے۔ دو ہزار سال قبل بھی یہودی اس دیوار کے سامنے کھڑے ہو کر رویا گڑگڑایا کرتے تھے، اسی لیے اس کا نام دیوار گریہ پڑ گیا، جب کہ مسلمان اس کو ’’دیوارِ براق‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اس دیوار کے قریب ہی یہودیوں کا ایک اور مقدس ترین عبادت گاہ ہے۔ اسے بنیادی پتھر بھی کہا جاتا ہے۔
متعدد یہودی ربیوں کے مطابق اس مقدس پتھر کے اوپر کوئی یہودی پائوں نہیں رکھ سکتا، جو ایسا کرتا ہے وہ عذاب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہودیوں کے عقیدے کے مطابق یہ پتھر دیوارِ گریہ کے بالکل مخالف سمت میں واقع الکاس آب شار کے نزدیک ہے۔ یہودی روایات کے مطابق دیوارِ گریہ کی تعمیر حضرت داؤد علیہ السلام نے کی اور موجودہ دیوارِ گریہ اْسی دیوار کی بنیادوں پر قائم ہے، جس کی تاریخ ہیکلِ سلیمانی سے جاملتی ہے لیکن مسلمان اس دیوار کو مسجد اقصٰی کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ دراصل مسلمان اس دیوار کو یوں مقدس سمجھتے ہیں کہ اس دیوار کو واقعۂ معراج سے نسبت ہے، معراج کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا براق اسی مقام پرآ کر رْکا تھا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں نہ صرف تمام شکست خوردہ عیسائیوں کو عام معافی دے دی گئی تھی بل کہ یہودیوں کو بھی برابری کے حقوق دیے گئے تھے، قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا اور ہیکل سلیمانی کی مغربی دیوار سمیت تمام علاقوں کو مقدس قرار دیا گیا تھا۔ مغربی دیوار کو مضبوط کیا گیا اور تمام انتظامات یہودیوں کو سونپ دے گئے۔ یہودی آج تک اس دیوار کو ہاتھ لگا کر گڑگڑاتے ہیں اور روتے پیٹتے ہیں، توبہ اور معافی طلب کرتے ہیں۔ مغربی دیوار کا تازہ ترین سروے یہ بتاتا ہے کہ دیوار مضبوط اور توانا ہے، اس کی دیکھ بھال اب یہودی خود کرتے ہیں۔ اب یہ ہی دیوار ان کا قبلہ ہے لیکن وہ ہیکل سلیمانی کی مکمل و مستحکم تعمیر کے خواہاںہیں۔
آج کل اس دیوار پر دُعاؤں اور حاجات کے پوسٹر چسپاں کرنے کے کا نیا رجحان دیکھا جا رہا ہے۔ یہودیوں نے فیس بْک کے ذریعے آن لائن دعائیہ پیغامات کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کر لیا ہے۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق یہودیوں کا دیوار گریہ کے لیے دعائیں وصول کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کاغذ پر اپنی حاجات اور دعائیں لکھ کر دیوار پر چسپاں کر دیاجاتا ہے۔ فیس بک پر یہودیوں نے ایک مخصوص صفحہ تخلیق کیا ہے، جس میں یہودی صارفین کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اسرائیل کے اندر ہوں یا باہر، اپنی دعا فیس بک پر درج کرائیں۔
یہودی رضاکار اس صفحے سے خود ان حاجات کے پرنٹ حاصل کر کے دیوار پر چسپاں کریں گے۔ یہ کام ایک یہودی تنظیم ’’یوتھ فار جیروسیلم‘‘ کے زیر اہتمام کیا جا رہا ہے۔ تنظیم پوری دنیا بالخصوص اسرائیل سے یہودی نوجوانوں کو بیت المقدس کے ساتھ وابستہ رکھنے کے لیے سرگرم ہو چکے ہیں۔ فیس بک کے ذریعے دیوار گریہ تک یہودیوں کے پیغامات کی رسائی بھی اسی تنظیم کے منصوبوں کا ایک حصہ ہے۔ فیس بک پر صہیونی تنظیم کی ترغیب پر بڑے پیمانے پر یہودیوں نے اپنی دعائیہ حاجات تحریر کی ہیں۔ اس صفحے کے پس منظر میں دیوار کی تصویریں مختلف زاویوں سے دکھائی گئی ہیں۔ بعض یہودیوں کا خیال ہے کہ دیوار پر چسپاں کی گئی وہی دعا قبول ہوگی جو ہاتھ سے لکھی ہو گی جب کہ بعض روشن خیال صہیونی کمپیوٹر پرنٹ کو بھی جائز قرار دیتے ہیں۔
صہیونیتصہیونیت ایک ایسی تحریک کا نام ہے جس کا مقصد یہودی قوم کی تعمیر نو ہے۔ صہیون یا زائن (Zion) بیت المقدس (یروشلم) کا ایک حصہ ہے۔ انجیل میں اسے حضرت داؤد کا شہر کہا گیا ہے، جس کو یہودی حیات نو اور اسرائیلی حکومت کا نشان سمجھتے ہیں۔ صدیوں پہلے جب رومن سلطنت نے یہودیوں کی بادشاہت کا خاتمہ کیا اور یہودیوں کو جلاوطن کردیا تو وہ اس وقت سے فلسطین واپس لوٹنے اور اپنی ریاست کو پھر سے قائم کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ صدیوں سے انہوں نے یہ خواب اپنے دل میں چھپا رکھا ہے ۔ اس عرصہ میں وہ جہاں بھی گئے اور جہاں بھی رہے، انہوں نے ہر جگہ اپنے مذہب اور اپنی الگ پہچان کو برقرار رکھا۔
یورپ میں جب صنعتی انقلاب شروع ہوا تو وہ اپنے خول سے باہر نکلے۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں وہ ایک حکمت عملی کے تحت اپنے آپ کو بہت حد تک دوسری اقوام کے قریب لانے میں کام یاب ہوئے لیکن یہودیوں نے اپنے وطن کا خواب ترک نہ کیا۔ معاشی سطح پر مضبوط ہونے کے بعد جب وہ یہ کہنے لگے کہ چوںکہ وہ ایک الگ قوم ہیں اس لیے ان کے واسطے ایک علیحدہ وطن ضروری ہے، تو اُس پر کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا مگر مشرقی یورپ کے یہودی اپنی پرانی ضد پر قائم رہے، وہ کہتے تھے کہ ان کا وطن فلسطین ہی ہو گا اور یوں دنیا میں ایک نئے فساد کا آغاز ہوگیا ۔
شروع میں صہیونیت کی تحریک سیاسی نہیں تھی بل کہ محض تہذیبی تھی لیکن جب تھیوڈور ہرزلی نے پہلی مرتبہ باقاعدہ تجویز پیش کی کہ اقوام عالم کی یہود دشمنی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک یہودی ریاست کا قیام ضروری ہے تو اُس کے بعد صہیونیت کے اہداف بدل گئے۔ چناں چہ 1897 میں سوئٹزرلینڈ کے شہر بیل میں پہلی صہیونی کانفرنس منعقد ہوئی اور یوں اس کی شاخیں اُن ملکوں میں قائم کی گئیں، جہاں یہودی کافی تعداد میں پہلے سے موجود تھے۔ ان سرگرمیوں میں امریکا کے یہودیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
اس تحریک میں پہلی دراڑ اس وقت پڑی جب انگلستان کے یہودیوں نے 1905 کی کانفرنس میں یہ تجویز پیش کی کہ لازمی نہیں کہ یہودیوں کا وطن فلسطین ہی ہو، یہ کہیں اور بھی ہوسکتا ہے۔ برطانیہ کی طرف سے اس کے لیے یوگنڈا (مشرقی افریقہ) کا علاقہ پیش کیا گیا لیکن اکثریت نے یہ تجویز رد کردی۔ یوں اکثریت کے رہ نما ویزمان کی سرکردگی میں یہ تحریک منظم رہی۔ ویزمان نے خلافت عثمانیہ (ترکی کے سلطان) سے فلسطین میں یہودیوں کے لیے کچھ حقوق حاصل کر لیے تو اس کے بعد اُن کے حوصلے بڑھے۔ پہلی جنگ عظیم میں ترکی، اتحادیوں کے خلاف جرمنی کا حلیف تھا۔
اس وقت بالفور برطانیہ کا وزیر خارجہ تھا اور وہ برطانوی سیاست میں با اثر بھی تھا چناں چہ اس نے ایک اعلان نامہ جاری کیا، جس میں اس بات کا عہد کیا گیا کہ یہودیوں کی بھرپور مدد کی جائے گی کہ وہ اپنا وطن فلسطین میں قائم کرسکیں۔ پہلی جنگ عظیم میں جب جرمنی کے ساتھ ترکی کو بھی شکست ہوئی تو مشرق کا بڑا علاقہ فرانس اور انگلستان نے آپس میں بانٹ لیا۔ فلسطین پر انگریز قابض ہو گئے اور اس کے ساتھ ہی بڑی تعداد میں یہودیوں نے فلسطین میں رہائشیں اختیار کرنا شروع کر دی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد صہیونیت کی تحریک نے مزید زور پکڑا اور برطانیہ کی مدد سے اسرائیل کی ریاست قائم ہوگئی۔
اس کے بعد اس تحریک نے اسرائیل سے بہ ظاہر اپنے آپ کو الگ کرلیا لیکن در پردہ اس تحریک کا تمام دنیا کے یہودیوں سے تعلق قائم رہا،جو اب تک ہے۔ اب بھی یہ تنظیم ساری دنیا کے یہودیوں کی تہذیبی و تعلیمی سرگرمیوں کو منظم کرنے اور دوسرے ملکوں سے یہودیوں کو اسرائیل بھیجنے کا انتظام کرتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ اسرائیل کے حق میں امریکا اور یورپی ملکوں میں اپنے نظریات کے پرچار کو منظم اور مالی امداد بھی جمع کرتی ہے۔ اس کا ایک بڑا مقصد اسرائیلی ریاست کو اتنا وسیع کرنا ہے، جس میں ساری دنیا کے یہودی آکر بس سکیں۔ اس توسیع پسندی کے نتیجہ میں اب تک فلسطین کے لاکھوں عرب بے وطن ہوچکے ہیں اور آج فلسطین اہم ترین عالمی مسئلہ بنا ہوا ہے۔
مشرقی یورپ میں صہیونیت کے فروغ نے خاص طور پراس قضیے میںاہم کردار ادا کیا تھا، جسے یہودیوں کی سیاسی اصطلاح میں ’’مسئلۂ یہود‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح روس میں یہودیوں کے خلاف ایکشن نے بھی صہیونی تحریک کے برپا ہونے میں ا ہم کردار ادا کیا۔ امریکا اور یورپ میں یہودیوں کا بڑھتا ہوا اثر ونفوذ اور دوسری طرف یہوودیوں میں ’’تحریک تنویر‘‘ (عقائد میں ایسی لچک پیدا کرنا جو یورپ کے لیے قابل قبول ہو، یا ایمانیات کو سماجی مسئلے سے زیادہ اہمیت نہ دینا) کی نا کامی نے بھی صہیونیت کے فروغ کو مہمیز دی۔
اس نسل پر ستانہ تحریک کو پروان چڑھانے کے لیے اس اصول کو مدنظر رکھا گیا کہ فلسطین کے اصل باسیوں کے حقوق چھین کر یہودیوں کو دیے جا سکتے ہیں۔ ایک بار صہیونی تحریک کی رکنیت حاصل کرنے کے بعد مذہبی یہودی اور سیکولر یہودی میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ جب تک کوئی بھی یہودی صہیونی تحریک کا رکن ہے، وہ ان ہی مقاصد کی تکمیل میں اپنی صلاحیتیں کھپائے گا، جس کے لیے صہیونی تحریک برپا کی گئی تھی۔