ڈھائی برس قبل 19 فروری 2013ء کی شب گہری ہوچکی تھی، ہڈیوں میں اترجانے والی سردی بلجئیم کے دارالحکومت برسلزکے ائیرپورٹ اور اس کے اطراف کو پوری طرح اپنے نرغہ میں لے چکی تھی، برسلز سے سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورچ جانے والا سوئس ایئرلائنز کمپنی کا ایک طیارہ بالکل تیارکھڑاتھا۔
کروڑوں کے ہیرے چرانے والوں نے دنیا کی آنکھوں میں دھول کیسے جھونکی؟ |
قریباً 20 مسافر اپنی سیٹیں سنبھال چکے تھے، وہ اس بات سے مکمل طورپر بے خبرتھے کہ اس جہاز میں ایسے سوٹ کیس لادے جا رہے ہیں جن میں 5 کروڑ ڈالر مالیت کے تراشیدہ اور غیرتراشیدہ ہیرے بھرے ہوئے ہیں۔ جب مسافروں کو یہی خبرنہیں تھی تو انھیں یہ خبرکہاں سے ہوتی کہ یہ ہیرے کبھی اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکیں گے۔ البتہ کہاجاتاہے کہ ائیرپورٹ میں کچھ لوگوں کو یہ سب کچھ بخوبی معلوم تھا۔
اب زیورچ جانے والی اس فلائٹ کے اڑان بھرنے میں 20منٹ باقی تھے، قیمتی مال اور نقدی کی نقل وحمل کرنے والی کمپنی برنکس (Brink`s)کی ایک سفیداور نیلی گاڑی جہاز کے بالکل قریب آکر رکی۔ 5کروڑمالیت کے ہیرے جہاز میں منتقل کرنے کی ذمہ داری پوری ہوچکی تھی۔ عین اسی لمحے ائیرپورٹ کے رن وے کی طرف سے دو سیاہ رنگ کی گاڑیاں ائیرپورٹ کا حفاظتی جنگلہ توڑ کر ائیرپورٹ میں گھسیں، ان میں سے ایک مرسڈیز وین تھی جبکہ دوسری آؤڈی اے 8۔ دونوں کے وہی ماڈل تھے جو عمومی طورپر بلجئین پولیس استعمال کرتی ہے۔
ان کی لائٹس بالکل پولیس کی گاڑیوں کی طرح نیلی تھیں اور جل بجھ رہی تھیں۔ گاڑیوں میں آٹھ نقاب پوش افراد سوار تھے، وہ اپنی وردیوں سے بلجئیم پولیس کے اعلیٰ اہلکار معلوم ہوتے تھے۔ یہ گاڑیاں سیدھی زیورچ جانے والی فلائٹ کے پاس آکر رکیں، نقاب پوش افراد نے جہاز میں داخل ہوکر پائلٹس اور حفاظتی عملے پر اپنیAK-47 جیسی گنیںتان لیں اور انھیں گولیوں سے بھون ڈالنے کی دھمکیاں دیتے ہوئے پورے جہاز پر اس طرح قابو پالیا کہ کسی مسافر کو شائبہ تک نہ ہوا کہ یہ پولیس کے اعلیٰ اہلکار نہیں بلکہ تاریخ انسانی کا سب سے بڑا(ہیروں کا) ڈاکہ ڈالنے والے جرائم پیشہ لوگ ہیں۔
اسی دوران کچھ ڈاکو کارگو والے حصے میں داخل ہوئے اورہیروں کے 120بیگ اٹھائے، اپنی گاڑیوں میں رکھے اور پھر جس طرح پلک جھپکنے میں آئے تھے، اسی طرح واپس چلے گئے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پوری واردات کے دوران ایک گولی بھی نہیں چلی حتیٰ کہ ڈاکوؤں نے کسی فرد کو ایک ہلکی سی چپت بھی نہیں لگائی تھی۔ تمام کے تمام مسافر اب بھی اس ساری واردات سے بے خبرتھے اور چندمنٹوں میں اڑان بھرنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔
انھیں خبرتب ہوئی جب جہاز کے اندر فلائٹ کینسل ہونے کا اعلان ہوا اورتمام مسافروں سے جہاز سے اترجانے کی درخواست کی گئی۔ واردات کے فوراً بعد خبر ملنے پر پولیس حرکت میں آگئی لیکن ڈاکوؤں کا کہیں نام ونشان نہیں تھا۔ البتہ اگلی صبح ائیرپورٹ سے کچھ دور ایک علاقے سے ایک جلی ہوئی گاڑی ضرور ملی، پولیس کاخیال تھا کہ واردات میں استعمال ہونے والی دوگاڑیوں میں سے ایک یہ ہوگی۔
برسلز ائیرپورٹ کے ترجمان جان وین ڈیرکروئسی کے خیال میں ڈاکو واردات سے پہلے ائیرپورٹ کے قریب ہی ایک زیرتعمیر عمارت میں چھپے ہوئے تھے۔ ان کے مطابق یہ ایک حیرت انگیز واردات تھی، بالکل فوجیوں جیسی منظم کارروائی، ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ ایسا بھی ہوسکتاہے۔ حالانکہ برسلز ائیرپورٹ پر دنیا کے دیگر بین الاقوامی ہوائی اڈوں کی طرح سخت ترین ایوی ایشن سیکورٹی اور حفاظتی انتظامات ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود ڈاکوؤں کو صرف تین منٹ جہاز تک پہنچنے میں لگے جبکہ اگلے گیارہ منٹوں میں وہ 120پارسلز قبضے میں لے چکے تھے۔ظاہر ہے کہ وہ بہت جلدی میں تھے۔
اسی جلدی میں ان سے ہیروں کے چندپارسلز وہیں چھوٹ گئے۔بعض ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈاکو صرف ہیرے ہی نہیں لے کر گئے بلکہ وہ سونا اور پلاٹینیم کی بڑی مقدار بھی لے گئے تھے۔ بلجئیم حکام کے مطابق ڈاکوغیرمعمولی حد تک تربیت یافتہ تھے، فرنچ ائیرپورٹ سیکورٹی کنسلٹنٹ ڈورن لیوی کاکہناہے کہ یقینا اندرکے لوگ اس واردات میں ملوث ہیں۔
اس ساری واردات کے ایک عینی شاہد کابھی یہی خیال ہے۔ انٹیورپ ورلڈ ڈائمنڈ سنٹر کی ترجمان کیرولین ڈی وولف کے مطابق برنکس کی گاڑی سے جہاز میں ہیرے منتقل کرنے کے لئے محض پندرہ منٹ پہلے پہنچی۔ واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ واردات کرنے والوں کو ہیرے جہاز تک پہنچنے اور انھیں منتقل کرنے کی ٹائمنگ کا پورا علم تھا۔ تاہم ابھی تک کوئی کڑی نہیں مل سکی کہ ڈاکوؤں نے اس قدر زیادہ مالیت کے ہیرے جہاز پر لادے جانے کی خبرکیسے حاصل کی؟
ڈاکوؤں کے ہتھے چڑھنے والے ہیرے برسلز سے 25کلومیٹر دور واقع شہرانٹیورپ سے آئے تھے۔ یہ شہر پوری دنیا میں ہیروں کی تجارت کا مرکزمانا جاتا ہے۔ ہرروز 200ملین ڈالر مالیت کے ہیرے اس شہر میں آتے اور جاتے ہیں۔ 34000 افراد ہیروں کے کاروبار ہی سے وابستہ ہیں۔ان میں ہیروں کی کان کن کمپنیوں کے نمائندوں سے لے کر ڈیلرز اور پالش کرنے والے سب ہی شامل ہیں۔ یہاں حفاظتی انتظامات بھی اسی لئے بہت زیادہ سخت ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ انٹیورپ سے نکلنے والا مال پہلی بار لوٹا گیا ہو۔ 2003ء میں بھی چوروں نے ایک سو سے زائد سیف توڑ کر100 ملین ڈالرکے ہیرے، جواہرات اور نقدی نکالی اور پھرکبھی چوری شدہ مال میں سے کچھ بھی واپس نہ مل سکا۔
آئیے! اب سنیں صدی کی سب سے بڑی چوری کا احوال!
15فروری2003ء کو انٹیورپ ڈائمنڈ سنٹر میں100ملین ڈالر کے قیمتی جواہرات چورے کئے گئے۔ اگر لٹنے والی رقم اور دیگرقیمتی سامان کی مالیت بھی اکٹھی کی جائے تو یہ نصف بلین ڈالرز کی چوری قراردی جاتی ہے۔ انٹیورپ ڈائمنڈ سنٹر کی عمارت دنیا کی سب سے محفوظ عمارتوں میں سے ایک ہے۔اربوں ڈالرز کے ہیرے یہاں موجود ہیں۔ اس میںدو پولیس سٹیشن ہیں۔ ہروقت پٹرولنگ ہوتی ہے، ہر طرف حفاظتی کیمرے لگے ہوتے ہیں، پورے سنٹر میں کوئی ایک انچ بھی جگہ ایسی نہیں ہوتی جو کیمروں کی نگاہ سے اوجھل ہو۔
چوری کی واردات بالکل کسی گینگسٹر فلم کے سٹائل کی تھی۔ ہیروں کے ایک بدنام زمانہ چور لیونارڈو نوٹربرٹولو کی ’’کمان‘‘ میں چوروں نے غیرمعمولی حد تک سخت اور جدیدترین 10حفاظتی دائروں کو عبور کرکے یہ واردات کی تھی۔ چوروں کے اس گروہ کو ’’دی بینڈٹس‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتاہے ۔لیونارڈو نے اس عمارت کے پورے نظام کا دوسال سے زائد عرصہ تک جائزہ لیا کہ واردات کو کیسے کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچایاجاسکتا ہے۔
اعلیٰ ٹیکنالوجی کے حامل لاکس اور ہیٹ سینسرز حتیٰ کہ ایک 18انچ موٹے فولادی دروازے کو توڑا۔انھوں نے سیکورٹی کیمروں کی ٹیپس بھی تبدیل کردیں اور اپنی شناخت کا کوئی نشان نہ چھوڑا۔ انھوں نے مجموعی طور پر 160سیف ڈیپوزٹ باکسز میں سے123 باکسز توڑے۔ حالانکہ یہ سب کے سب لوہے اور تانبے کے بنے ہوئے تھے۔ انھیں دو لاکس سے مقفل کیاگیاتھا، ایک چابی والا لاک اور دوسرا کمبی نیشن لاک۔ ثانی الذکر کو ہندسوں والا تالہ بھی کہاجاتاہے جبکہ ہندسوں کے بجائے حروف تہجی بھی استعمال ہوتے ہیں۔ کوئی ایک لفظ ’’ پاس ورڈ‘‘ کے طورپر استعمال ہوتا ہے۔
واردات اس درجہ کمال مہارت سے کی گئی کہ کوئی ایک فرد بھی معمولی سا زخمی بھی نہ ہوا، حتیٰ کہ اس میں کسی فرد کو دھمکانے کی ضرورت بھی نہ پڑی۔ البتہ ان سے صرف ایک غلطی ہوئی، انھوں نے ایک ادھ کھایا سینڈوچ وہیں چھوڑ دیاتھا جس سے ڈین این اے حاصل کرلئے گئے۔چنانچہ پولیس نے مہینوں کی جدوجہد کے بعد دنیا کے مختلف ممالک میں پھندے لگا کر ان چوروں کو پکڑ لیا۔ ان میں لیونارڈو بھی تھا جس پر مقدمہ چلا اور اسے دس برس قید کی سزاسنائی گئی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اسے مجرم قراردے کر سزا ضروری سنائی گئی ۔
تاہم اس نے آج تک اس واردات کے ساتھ اپنا تعلق تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی کسی صحافی کے ساتھ اس واردات کی بابت کوئی ایک لفظ بھی بولا۔ یہ امر بھی دلچسپی سے بھرپور ہے کہ دنیابھر میں چھان بین کے باوجود پولیس اس واردات کی چوری شدہ قیمتی اشیاء میں سے کچھ بھی برآمد نہیں کرسکی۔ واردات کو ہوئے10برس بیت چکے ہیں لیکن پولیس ابھی تک سمجھنے سے قاصر ہے کہ چوروں نے کیسے واردات کی تھی۔ البتہ کچھ دلچسپ پہلوؤں کو ایک ساتھ رکھاجائے تو واردات کے بارے میں کچھ نہ کچھ سمجھ آجاتی ہے۔ لیونارڈو نے اس واردات سے تین برس قبل ڈائمنڈ سنٹر میں ایک آفس 700 ڈالر ماہانہ کرائے پر لیا۔
اس نے بلڈنگ کے نیچے واقع محفوظ تجوری میں ایک ڈیپوزٹ باکس بھی حاصل کیا۔ اسی طرح اس نے ایک شناختی کارڈ بھی لیا جس کی وجہ سے وہ 24گھنٹے اس بلڈنگ میں آ اور جا سکتاتھا۔ پورے ڈائمنڈ سنٹر میں مشہورتھا کہ وہ ایک اطالوی تاجر ہے جو ہیروں کا بڑے پیمانے پر کاروبار کرتاہے۔ ڈاکہ زنی کی واردات کے فوراً بعد لیونارڈو اوراس کے ساتھیوں نے حفاظتی کیمروں کی وہ فلم بھی چوری کرلی جس سے ان کی شناخت ہوسکتی تھی۔
دنیامیں کچھ ایسی دیگروارداتیں بھی ہوئیں جن میں مجرموں نے حیران کن ہتھکنڈے استعمال کئے۔
٭مارچ2007ء میں چارلس ہیکٹر فلومینبوم نام ایک چور نے عجیب وغریب طریقہ واردات اختیارکیا۔ وہ انٹیپورپ میں اے بی این امرو (ABN Amro)بنک کا کسٹمر بن گیا، اس نے بنک کے سارے عملے سے انتہائی قریبی، دوستانہ تعلقات قائم کئے، اور بنک والوں کو یقین دلادیا کہ وہ ہیروں کا انتہائی کامیاب تاجر ہے۔ اسی اعتماد کے بل بوتے پر اس نے بنک کی تجوری کی چابی حاصل کرلی۔ چابی حاصل کرکے وہ ایک دن اندرداخل ہوا اور پھر سب کے سامنے 28ملین ڈالر کے ہیرے لے کر رفوچکر ہوگیا۔
٭مئی2008ء کے وسط میں چارمسلح ڈاکو جن میں سے دو نسوانی لباس میں تھے، پیرس کے ایک جیولری سٹور میں داخل ہوئے، جیسے ہی وہ اندر داخل ہوئے انھوں نے اسلحہ نکال لیا، تمام کسٹمرز اور ملازمین کو ایک کونے میں دھکیل دیا اور تمام شوکیسز اور الماریوں سے زیورات نکالے اور الٹے پاؤں غائب ہوگئے۔ کہاجاتاہے کہ ان کے ہاتھ لگنے والے زیورات کی مالیت 102ملین ڈالر تھی۔ اس کا شمار تاریخ کی سب سے بڑی ڈکیتیوں میں ہوتاہے۔
٭2008ء کے نیوائیرایونٹ کے موقع پر دو مسلح آدمی نیویارک میں ایک جیولری سٹور میں داخل ہوئے۔ انھوں نے کٹڑ یہودیوں جیسا لباس پہن رکھاتھا اور نقلی داڑھیاں لگا رکھی تھیں، سٹورمیں داخل ہوتے ہی انھوں نے سیف تک رسائی حاصل کی، اس دوران حفاظتی کیمروں پر رنگ پھینک دیا۔ انھوں نے40لاکھ ڈالر کے ہیرے اور دیگر جوہرات اٹھائے اور چلتے بنے۔ بعدازاں معلوم ہواکہ ڈکیتی اس سٹور کے مشترکہ مالکان میں سے ایک نے کرائی جو ایک ملین ڈالر کا مقروض ہو چکا تھا، اس نے چھ ماہ سے اپنے گھر کا کرایہ ادانہیں کیاتھا اور ڈاکہ زنی کی اس واردات سے کچھ ہی دن پہلے ایک نئی انشورنش پالیسی بھی حاصل کی تھی۔
٭سن2009ء میں دو سوٹیڈ بوٹیڈ آدمی وسطی لندن کے نیوبانڈ سٹریٹ پر واقع سٹور ’’گراف جیولرز‘‘ میں داخل ہوئے۔ یہ سہ پہر کا وقت تھا اور لوگ سڑک پر آجارہے تھے۔ ایسے میں دونوں ڈاکوؤں نے سٹور کے ملازمین کو اسلحہ دکھا کر دھمکاکر 43زیورات کے سیٹ چھین لئے۔ ان کی مالیت65ملین ڈالر بتائی گئی۔
٭گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں بھی ایک بڑی واردات فرانس کے شہر کیننز میں ہوئی، وہاں کے لوگ ابھی تک اسے بھلانہیں سکے۔1994ء میں تین ڈاکو مشین گنوں سے مسلح ہوکر کارلٹن ہوٹل میں گھس گئے۔ انھوں نے43ملین ڈالر کے زیورات لوٹے۔
برسلز ائیرپورٹ پر ہیرے چھینے جانے کی واردات میں ایک امکان یہ بھی ظاہر کیاجارہاہے کہ اس میں لیونارڈو نوٹربرٹولو کے ’’سکول آف ٹورن‘‘(گینگ کا نام) ملوث ہوسکتاہے۔ لیونارڈو آج کل پیرول پر آزاد دنیا کی فضاؤں کے مزے لے رہا ہے۔
اگر اس صدی کی سب سے بڑے ڈاکہ میں ادھ کھایا سینڈوچ باقی نہ بچایاہوتا تو وہ کبھی نہ پکڑا جاتا۔ اور ہوسکتاہے کہ برسلز ائیرپورٹ والی واردات بھی اسی گینگ کی ہو۔ بہت سے لوگوں کی رائے ہے کہ اگر یہ اس ٹولے کا کام ہے تو پھر کبھی مجرم پولیس کے ہاتھ نہیں آسکیں گے کیونکہ اب تو ادھ کھائے سینڈوچ جیسی کوئی غلطی بھی نہیں کی گئی۔ اگرچہ دنیا بھر میں قیمتی مال رکھنے والے اس واردات کے بعد مزید چوکس ہوگئے ہیں لیکن انھیں سمجھ نہیں آرہی ہے کہ اب وہ اپنے مال کو کیسے محفوظ رکھیں، کیونکہ چور حفاظتی تدابیر کرنے والوں سے زیادہ ماہر، شاطر اور ذہین ہیں۔