پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں حال ہی میں ایک منفرد اور کسی حد تک کچھ ڈراؤنا مجسمہ شہریوں کی توجہ کا مرکز بنا اور یہ معاملہ سوشل میڈیا پر بھی زیر بحث ہے۔
سرمئی رنگ کا 16 فٹ طویل مجسمہ لاہور کے عجائب گھر کے داخلی راستے پر تعینات کیا گیا تو یہ ایک معمہ بن گیا کہ آخر یہ کس کا مجسمہ ہے اور یہاں کیا کر رہا ہے؟ تاہم اس کی تنصیب کے چند روز بعد ہی اسے یہاں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ | |||||
درحقیقت یہ مجسمہ لاہور میں فنون لطیفہ کے ایک طالب علم ارتباط الحسن چیمہ کی تخلیق ہے۔ ارتباط الحسن چیمہ نے حال ہی میں پنجاب یونیورسٹی کے کالج آف آرٹس اینڈ ڈیزئن سے گریجویشن مکمل کی ہے اور یہ مجسمہ ان کی گریجویشن کا فائنل تھیسز ورک تھا۔ ارتباط الحسن چیمہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بارے میں بتایا کہ ’اس کردار کو تخلیق کرتے ہوئے میرے ذہن میں شیطانیت کا کوئی تصور بھی نہیں تھا۔ دوسری بات یہ کہ اگر اسے شیطان بولا جا رہا ہے تو شیطان تو کسی نے بھی نہیں دیکھا، تو پھر اسے کیوں شیطان کا نام دیا جا رہا ہے؟‘ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک تصوراتی کردار ہے اور اس کو ایک کردار ہی رہنا چاہیے، جیسے کارٹون کردار ہوتے ہیں اسی طرح یہ بھی ایک کردار ہے۔‘ ارتباط الحسن چیمہ نے بتایا کہ ان کے تھیسز کا عنوان ’فیروسٹی‘ یعنی درندگی یا وحشی پن تھا۔ | |||||
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے تھیسز ورک کی آرٹ سٹیٹمنٹ یہ تھی کہ جب ایک انسان اپنی اصلاح کرنا چھوڑ دیتا ہے تو وہ اتنا وحشی ہو جاتا ہے۔ ‘ ’جو انسان اپنی جسمانی اور ذہنی باطن کا مشاہدہ یا مشاہدہِ نفس نہیں کرتا وہ ایسا وحشی بن جاتا ہے اور یہی میں نے اپنے فن میں دکھانے کی کوشش کی۔ یعنی جو شخص اپنی اصلاح کے لیے اپنا مشاہدہ نہیں کرتا وہ بہت خوفناک ہو جاتا ہے۔‘ اس کردار کی تخلیق کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ وہ اس سے پہلے بھی انسان اور جانور کے ملاپ یا مخلوط النسل صورتوں کو فن پاروں کی شکل میں پیش کرتے رہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ اس کی قدامت 16 فٹ ہے اور فائبرگلاس سے تیاری میں اس پر پانچ ماہ صرف ہوئے۔ ارتباط الحسن چیمہ کا کہنا تھا کہ لاہور عجائب گھر میں مجسموں کی ایک نمائش منعقد ہونا تھی اور اسی سلسلے میں مختلف طالب علموں کے بنائے ہوئے مجمسے وہاں رکھے گئے تھے۔ | |||||
|